المصور
كلمة (المصور) في اللغة اسم فاعل من الفعل صوَّر ومضارعه يُصَوِّر،...
ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: اللہ کے نبی ﷺ جب قیام اللیل (تہجد) کے لیے اٹھتے تو اپنی نماز کس دعا سے شروع کرتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا آپ ﷺ قیام اللیل کرتے تو اپنی نماز اس دعا سے شروع کر تے تھے: ”اللَّهُمَّ رَبَّ جِبْرِيلَ ، وَمِيكَائِيلَ ، وَإِسْرَافِيلَ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ، اللَّهُمَّ اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ، إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ"۔ ترجمہ: اے اللہ! جبریل ومیکائیل اور اسرافیل کے رب! آسمان اور زمین کے پیدا کر نے والے! غیب اور ظاہر کے جا ننے والے! تو ہی اپنے بندوں کے درمیان جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں، فیصلہ فرمائے گا، جن چیزوں میں اختلاف ہے، ان میں اپنی منشاء سے حق کی طرف میری رہنمائی فرما۔ بے شک تو جسے چاہتا ہے اُسے سیدھی راہ دکھلا دیتا ہے۔
ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس دعا کے بارے میں دریافت کیا جس سے نبی ﷺ قیام اللیل میں نماز کا آغاز کیا کرتے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ نبی ﷺ جب رات کو نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو آپ ﷺ یہ دعا مانگتے تھے: ’’اللَّهُمَّ رَبَّ جِبْرِيلَ ، وَمِيكَائِيلَ ، وَإِسْرَافِيلَ‘‘: ان تین فرشتوں کی بطور خاص اللہ تعالی کی طرف اضافت کی گئی حالانکہ اللہ تعالی تو ہر شے کا رب ہے۔ ایسا ان فرشتوں کی بزرگی اوردوسرے فرشتوں پر ان کی فضیلت کی وجہ سے کیا گیا۔ گویا کہ آپ ﷺ نے جبرائیل علیہ السلام کو سب پر اس لیے مقدم کیا کیونکہ وہ آسمانی کتابوں کے امین ہیں اور تمام دینی امور انہی کے ہاتھ میں ہیں۔ اسرافیل علیہ السلام کو آخر میں ذکر کیا کیونکہ وہ صور پھونکنے والے ہیں اور جس سے قیامت قائم ہو جائے گی۔ میکائیل علیہ السلام کو درمیان میں ذکر فرمایا کیونکہ وہ بارش و روئیدگی وغیرہ جیسی ان تمام اشیاء کے نگران ہیں جن کا تعلق رزق کی ان تمام شکلوں کے ساتھ ہے جن پر دنیا کا مدار ہے۔ ’’فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ‘‘: یعنی انہیں عدم سے وجود بخشنے والے اور انہیں پیدا کرنے والے۔ ’’عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ‘‘: یعنی جو کچھ انسانوں کی نگاہوں سے اوجھل ہے اور جو کچھ ان کے سامنے ہے سب کو جاننے والے۔ ’’أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ‘‘: یعنی دنیا میں جن دینی امور میں لوگ اختلاف کرتے ہیں ان میں تو ان کے مابین فیصلہ کرے گا۔ ’’اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ‘‘: لوگ دین و دنیا کے جن امور میں اختلاف میں پڑے ہیں ان میں اپنی توفیق سے اور اپنی طرف سے آسانی پیدا فرماتے ہوئے میری حق اور راہ راست کی طرف رہنمائی فرما۔ ’’إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ‘‘: تو جسے چاہتا ہے اسے حق اور راہ راست کی طرف ہدایت دیتا ہے۔