المعطي
كلمة (المعطي) في اللغة اسم فاعل من الإعطاء، الذي ينوّل غيره...
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے: ’’جنت اور دوزخ نے باہم بحث ومباحثہ کیا۔ دوزخ نے کہا: میں سرکش ومتکبر اور جابر وظالم لوگوں کے لیے مخصوص کردی گئی ہوں۔ جنت نے کہا: مجھے کیا ہوا کہ میرے اندر صرف کمزور، حقیر وکمتر اور بھولے بھالے (سادہ لوح) لوگ داخل ہوں گے؟ اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا: تو میری رحمت ہے، میں تیرے ذریعے سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہوں گا رحم کروں گا اور دوزخ سے کہا: تو ميرا عذاب ہے میں تیرے ذریعے سے اپنے بندوں میں سے جسے چاہوں گا عذاب دوں گا۔ اور تم دونوں میں سے ہر ایک کے لیے اسے بھر دینے والی مقدار ہے۔ دوزخ تو اس وقت تک نہیں بھرے گی جب تک اللہ رب العزت اپنا پیر نہیں رکھ دے گا۔ تو وہ پکار اٹھے گی کہ بس، بس، بس۔ چنانچہ اس وقت وہ بھر جائے گی اور اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ سے سمٹ کر مل جائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ رہا جنت کا معاملہ تو اس کے (بھرنے کے) لیے اللہ تعالیٰ ایک (نئی) مخلوق پیدا فرمائے گا۔“
جہنم نے جنت پر فخر کیا کہ وہ ان سرکشوں، متکبروں اور مجرموں سے اللہ کے انتقام کی جگہ ہے جنہوں نے اللہ کی نافرمانی کی اور اس کے رسولوں کو جھٹلایا۔ البتہ جنت نے شکوہ کیا کہ اس میں تو زیادہ تر کمزور, فقیر اور مسکین لوگ ہی داخل ہوں گے بلکہ وہ اللہ کے سامنے فروتنی کا اظہار کرنے والے اور اس کى فرماں برداری کرنے والے ہوں گے۔ یہ بات جنت اور جہنم نے حقیقت میں کہی تھی، بایں طور کہ اللہ نے ان میں شعور و تمیز اور عقل پیدا فرما دی اور انہیں بولنے کی طاقت دے دی۔ اور اللہ کو کوئی شے عاجز نہیں کر سکتی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا: “تو میری رحمت ہے۔ میں تیرے ذریعے سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہوں گا رحم کروں گا۔” اور دوزخ سے فرمایا: “تو میرا عذاب ہے۔ میں تیرے ذریعے سے اپنے بندوں میں سے جسے چاہوں گا عذاب دوں گا۔” یہ تھا وہ فیصلہ جو اللہ نے ان دونوں کے مابین کیا۔ یعنی اللہ تعالی نے جنت کو اس لیے پیدا فرمایا تاکہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اس پر نوازش کرتے ہوئے اس کا اہل بنا دے اور اسے اس میں داخل کر کے اس پر رحم فرمائے۔ جب کہ دوزخ کو ان لوگوں کے لیے پیدا فرمایا جو اس کی نافرمانی کے مرتکب ہوتے ہیں اور اس کا اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں۔ اس کے ذریعے اللہ انہیں عذاب دے گا۔ یہ سب اللہ كى ملکیت ہے، وہ جس طرح چاہے اس میں تصرف کرتا ہے۔ وه اپنے کاموں کے لیے (کسی کے آگے) جواب ده نہیں اور سب (اس کے آگے) جواب ده ہیں۔ تاہم جہنم میں صرف وہی جائے گا جو اپنے عمل کی وجہ سے اس کا مستحق ٹھہرے گا۔ پھر فرمایا: ’’اور تم دونوں میں سے ہر ایک کے لیے اسے بھر دینے والی مقدار ہے۔‘‘ یہ اللہ تعالی کا ان دونوں سے وعدہ ہے کہ وہ انہیں ان لوگوں سے بھر دے گا جو ان میں رہیں گے۔ دوزخ کی طرف سے تو واضح مطالبہ ہوگا جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: [يَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلأْتِ وَتَقُولُ هَلْ مِن مَّزِيدٍ] ترجمہ: ’’جس دن ہم جہنم سے پوچھیں گے کہ کیا تو بھر گئی ہے؟ وہ جواب دے گی کہ کیا کچھ اورزيادہ بھی ہے؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے قسم اٹھا رکھی ہے کہ وہ جہنم کو ضرور جنوں اور انسانوں سے بھر دے گا۔ چنانچہ حساب كے بعد جنت و دوزخ، انسانوں اور جنات کے لیے جائے سکونت ہوں گی۔ جو ایمان لایا اور اس نے صرف اللہ ہی کی عبادت کی اور اس کے رسولوں کی اتباع کی تو اس کا جائے مقام جنت ہو گا اور جس نے نافرمانی، انکار اور تکبر کیاْ اس کا ٹھکانہ دوزخ ہو گا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’دوزخ تو اس وقت تک نہیں بھرے گی جب تک اللہ رب العزت اپنا پیر نہیں رکھ دے گا۔ تو وہ پکار اٹھے گی کہ بس، بس، بس۔ چنانچہ اس وقت وہ بھر جائے گی اور اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ سے سمٹ کر مل جائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔” تو جہنم اس وقت تک نہیں بھرے گی جب تک کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس پر اپنا قدم نہ رکھ دے گا۔ چنانچہ وہ سمٹ جائے گی اور اس کے حصے ایک دوسرے سے مل جائیں گے اور وہ اپنے اندر موجود لوگوں پر تنگ ہو جائےگی۔ اس طرح وہ بھر جائے گی اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ اللہ تعالی کے لئے بغیر تحریف و تعطیل اور بغير تکییف و تمثیل کے پاؤں کو ثابت ماننا واجب ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’رہا جنت کا معاملہ تو اس کے (بھرنے کے) لیے اللہ تعالیٰ ایک (نئی) مخلوق پیدا فرمائے گا۔” یعنی جنت اس وقت تک نہیں بھرے گی جب تک کہ اللہ تعالی اس کے لیے ایک دوسری مخلوق پیدا نہ فرما دے گا، جن سے وہ بھر جائے گی۔
رمضانُ شهرُ الانتصاراتِ الإسلاميةِ العظيمةِ، والفتوحاتِ الخالدةِ في قديمِ التاريخِ وحديثِهِ.
ومنْ أعظمِ تلكَ الفتوحاتِ: فتحُ مكةَ، وكان في العشرينَ من شهرِ رمضانَ في العامِ الثامنِ منَ الهجرةِ المُشَرّفةِ.
فِي هذهِ الغزوةِ دخلَ رسولُ اللهِ صلّى اللهُ عليهِ وسلمَ مكةَ في جيشٍ قِوامُه عشرةُ آلافِ مقاتلٍ، على إثْرِ نقضِ قريشٍ للعهدِ الذي أُبرمَ بينها وبينَهُ في صُلحِ الحُدَيْبِيَةِ، وبعدَ دخولِهِ مكةَ أخذَ صلىَ اللهُ عليهِ وسلمَ يطوفُ بالكعبةِ المُشرفةِ، ويَطعنُ الأصنامَ التي كانتْ حولَها بقَوسٍ في يدِهِ، وهوَ يُرددُ: «جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا» (81)الإسراء، وأمرَ بتلكَ الأصنامِ فكُسِرَتْ، ولما رأى الرسولُ صناديدَ قريشٍ وقدْ طأطأوا رؤوسَهمْ ذُلاً وانكساراً سألهُم " ما تظنونَ أني فاعلٌ بكُم؟" قالوا: "خيراً، أخٌ كريمٌ وابنُ أخٍ كريمٍ"، فأعلنَ جوهرَ الرسالةِ المحمديةِ، رسالةِ الرأفةِ والرحمةِ، والعفوِ عندَ المَقدُرَةِ، بقولِه:" اليومَ أقولُ لكمْ ما قالَ أخِي يوسفُ من قبلُ: "لا تثريبَ عليكمْ اليومَ يغفرُ اللهُ لكمْ، وهو أرحمُ الراحمينْ، اذهبوا فأنتمُ الطُلَقَاءُ".