المبين
كلمة (المُبِين) في اللغة اسمُ فاعل من الفعل (أبان)، ومعناه:...
ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”دوزخ والوں کی دو قسمیں ایسی ہیں کہ جنہیں میں نے نہیں دیکھا، ایک قسم تو ان لوگوں کی ہے کہ جن کے پاس بیلوں کی دموں کی طرح کوڑے ہوں گے جس سے وہ لوگوں کو مارتے پھریں گے اور دوسری قسم ان عورتوں کی ہے جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی۔ وہ مردوں کو اپنی طرف مائل کریں گی اور خود مردوں کی طرف مائل ہوں گی، ان عورتوں کے سر بُختی اونٹوں کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے ہوں گے وہ عورتیں جنت میں داخل نہیں ہوں گی اور نہ ہی جنت کی خوشبو پاسکیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی اتنی مسافت (یعنی دور) سے محسوس کی جاسکتی ہے“۔
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ " صِنْفَان من أهل النار لم أَرَهُما " یعنی میں نے ان کو اپنے زمانے میں نہیں دیکھا، اس زمانے کی پاکیزگی کی وجہ سے، بعد میں یہ رونما ہوئے۔ یہ اللہ کے نبی ﷺ کے معجزات میں سے ہے، جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی تائید فرمائی۔ " قوم معهم سِيَاط كَأذْنَابِ البَقر يضربون بها الناس" علماء کہتے ہیں کہ یہ وہ پولیس والے ہیں جو لوگوں کو ناحق گائے کی دُموں کے مانند اپنے کوڑوں سے مارتے پھریں گے یعنی لمبے کوڑوں سے لوگوں کو ناحق مارتے ہیں۔ دوسری قسم "نساء كاسيات عاريات مُمِيلات مائلات." ہے۔ اس کا مطلب بعض علماء نے یہ بیان کیا ہے کہ عورتیں باریک کپڑے پہنیں گی جو کہ تقوے سے خالی ہوں گی۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ“ (ترجمہ: اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے)۔ اسی لیے یہ حدیث ہر فاسق و فاجر عورت کو شامل ہے، اگرچہ اس نے ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہن رکھے ہوں، اس لیے کہ ’پہنے ہونے‘ سے مُراد ظاہری جسم پر کپڑوں کا پہننا ہے جب کہ وہ تقوے سے خالی ہوں گی۔ اس لیے کہ تقوی سے خالی ہونا یقیناً ننگا ہونا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ”وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ“۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ ’’كاسيات عاريات‘‘ یعنی انہوں نے کپڑے تو پہنے ہوں گے لیکن ان سے ستر نہیں چھپے گا یا تو تنگ ہونے کی وجہ سے یا باریک ہونے کی وجہ سے یا چھوٹے ہونے کی وجہ سے۔ ان میں سے ہر طرح کے کپڑے پہننے والی عورت کپڑے پہن کر بھی ننگی ہے۔ "مُمِيَلات" یعنی آڑی مانگ نکالنے والی (جو سر کے ایک جانب کو نکالی جاتی ہے) جیسا کہ بعض حضرات نے اس کی تفسیر کی ہے کہ ایک جانب مانگ نکالنے والی عورت ’’مائلۃ‘‘ کہلاتی ہے اور اس کا طرزِ عمل ’’میل‘‘ کہلاتا ہے، اس لیے کہ یہ عورتیں اپنی ایک جانب مانگ نکال کر اجنبی مردوں کو مائل کرنے والی ہوتی ہیں۔ یہ میلان خاص کر کفار کی عورتوں میں پایا جاتا ہے۔ اور اس میں بعض مسلمان عورتیں بھی مبتلا ہیں، اللہ کی پناہ۔ سر کے بالوں کو ایک طرف بکھیر دیتی ہے۔ایسی عورتیں ’’مميلة‘‘ یعنی اپنی مانگ کو ایک طرف مائل کرنے والی کہلاتی ہیں۔ بعض علماء کا کہنا ہے ’’مميلات‘‘ کا مطلب ہے دوسروں کو فتنے میں ڈالنے والی عورتیں، بایں طور کہ وہ ننگے سر اور خوشبو وغیرہ کے ساتھ نکلتی ہیں، اس طرح دوسروں کو اپنی طرف مائل کرتی ہیں۔شاید یہ لفظ دو معنوں کو شامل ہے۔ اس لیے کہ قاعدہ یہ ہے کہ جب نص دو معنوں پر مشتمل ہو اور کسی ایک معنی کی وجہِ ترجیح نہ ہو، تو اسے دونوں معنوں پر محمول کیا جاتا ہے۔ یہاں پر بھی کسی ایک معنی کے لیے کوئی وجہِ ترجیح نہیں اور نہ ہی دونوں معنوں کے جمع ہونے میں کوئی ممانعت ہے، اس لیے یہ دونوں معنوں کو شامل ہوگا۔ "مَائِلات" یعنی حق سے اور اپنے اوپر لازم شرم و حیاء سے انحراف کرنے والی عورتیں، جیسے آج کل بازاروں میں مردوں کی چال چلنے والی عورتیں ہیں کہ وہ ایسی قوت اور پھرتیلی سے فوجیوں کی طرح زمین پر زور سے پاؤں رکھتی ہوئی اور بے پرواہی سے چلتی ہیں کہ کچھ مرد بھی اس طرح نہیں چل سکتے، مزید یہ کہ وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ اونچی آواز میں اس طرح ہنسی مذاق کرتی ہیں کہ فتنے کا سبب بن جاتی ہیں، اسی طرح دکان والے کے ساتھ کھڑی ہو کر ہنستے ہوئے لین دین کرتی ہیں اور دیگر بہت ساری خرابیوں اور بُرائیوں کا ارتکاب کرتیں ہیں۔ یہ عورتیں مائلات ہیں، یقیناً یہ حق سے دور ہیں، ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگتے ہیں۔ " رُؤُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ البُخْتِ المائِلة " (ان کے سر بختی اونٹ کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے)۔ البخت: ایک قسم کا اونٹ ہوتا ہے جس کی لمبی کوہان دائیں یا بائیں طرف جھکی ہوتی ہے، یہ عورت بھی اپنے سر کے بال اٹھا کر بختی اونٹ کی طرح دائیں یا بائیں جھکا دیتی ہے۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ وہ عورت ہے جو اپنے سر پر مردوں کی طرح پگڑی رکھتی ہے تاکہ اس کا دوپٹہ اونچا رہے، یہ بختی اونٹ کے کوہان کی طرح ہے۔ بہرحال یہ عورت سر کی ایسی زیب و زینت کرتی ہے جو فتنے کا باعث بنتی ہے، یہ جنت میں نہیں جائے گی اور نہ ہی جنت کی خوشبو سونگھ سکے گی -اللہ کی پناہ-، یعنی یہ عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی بلکہ اس کے قریب بھی نہیں ہوں گی، حالانکہ جنت کی خوشبو ستر سال یا اس سے زیادہ دور مسافت سے بھی سونگھی جاسکتی ہے۔ یہ عورت جنت کے قریب بھی نہیں جائے گی، -اللہ کی پناہ-، اس لیے کہ یہ راہِ راست سے بھٹک چکی ہوں گی یہ کپڑے پہننے کے باوجود بھی ننگی ہوں گی، مائل کرنے والی اور اپنے سر کو ایسا مائل ہونے والی ہوں گی جو فتنے اور زینت کا باعث ہے۔ مرقاة المفاتيح (6 /2302) شرح رياض الصالحين لابن عثيمين(6/372)