البحث

عبارات مقترحة:

الإله

(الإله) اسمٌ من أسماء الله تعالى؛ يعني استحقاقَه جل وعلا...

العفو

كلمة (عفو) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعول) وتعني الاتصاف بصفة...

البارئ

(البارئ): اسمٌ من أسماء الله الحسنى، يدل على صفة (البَرْءِ)، وهو...

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ پر(ایک مرتبہ کسی مرض میں) بے ہوشی طاری ہوئی تو ان کی بہن رونے لگیں ۔ اور کہنے لگیں: ہائے پہاڑ جیسے قوی و طاقتور! ہائے میرے ایسے اور ویسے! ان کے محاسن اس طرح ایک ایک کر کے شمار کرنے لگیں۔ جب عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو ہوش آیا تو انھوں نے کہا کہ تم جب میری کسی خوبی کا بیان کرتی تھیں تو مجھ سے پوچھا جاتا تھا کہ کیا تم واقعی ایسے ہی تھے؟!

شرح الحديث :

نعمان بن بشیر نے فرمایا کہ عبداللہ بن رواحہ بیمار ہوئے اور مرض کی شدت کی وجہ سے بے ہوش گیے۔ ان کی بہن نے جب ان کو اس حالت میں دیکھا تو سمجھا کہ وہ فوت ہو گیے ہیں تو اس نے ماتم کرتے ہوئے رونا شروع کر دیا اور یہ کہنا شروع کر دیا ’واجبلاہ‘ یعنی گویا وہ ان کے لیے ایک پہاڑ کی مانند تھے کہ جس میں پہاڑی راستے پر کسی حادثہ کی صورت میں بچاؤ کے لیے ــــــــــــ پناہ لی جا سکتی ہو۔ اس طرح اُس نے اُن کے مختلف امور کی نسبت اور اُن کے محاسن و خصوصیات کا تذکرہ دورِ جاہلیت کے انداز میں شروع کر دیا۔ جب انھیں اپنی بے ہوشی سے افاقہ ہوا تو انھوں نے اپنی بہن کو بتایا کہ انھیں کیا تکلیف پہنچی تھی۔ انہیں یہ کہا گیا کہ: کیا تو پہاڑ ہے جس سے پناہ لی جاتی ہے؟ کیا تو ایسا ایسا ہے جیسے تیرے اوصاف اور خوبیاں بیان کی جار ہی ہیں؟ اپنی بے ہوشی کی کیفیت کے متعلق اپنی بہن کو بتایا اور یہ انداز دھمکانے اور سخت وعید کرنے کے قبیل سے ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ جب آپ فوت ہوئے تو انھوں نے ماتم نہ کیا اور لوگوں کو بھی ماتم نہ کرنے کی نصیحت کی۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية