الشهيد
كلمة (شهيد) في اللغة صفة على وزن فعيل، وهى بمعنى (فاعل) أي: شاهد،...
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ جمعہ کے دن لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: لوگو! تم دو پودے ایسے کھاتے ہو جنہیں مَیں خبیث (بدبودار ومکروہ) سمجھتا ہوں ۔ یہ پودے لہسن اور پیاز ہیں۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ جب آپ مسجد میں کسی سے ان کی بو محسوس کرتے تو آپ ﷺ کے حکم سے اسے بقیع کی طرف نکال دیا جاتا۔ چنانچہ جو کوئی انہیں کھائے، اسے چاہیے کہ انھیں پکا کر ان کی بو ختم کر لے۔
حدیث کا مفہوم: عمر رضی اللہ عنہ خطبہ کے حاضرین کو بتا رہے ہیں کہ وہ دو مکروہ پودوں یعنی پیاز اور لہسن کو کھاتے ہیں۔ یہاں "خُبث" سے مراد بدبو ہے۔ عرب لوگ "خبیث" کے لفظ کا اطلاق ہر برے اور ناپسند قول و فعل، مال، کھانے یا شخص پر کرتے ہیں۔ اس پر جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث دلالت کرتی ہے جس میں آیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جو شخص یہ بدبودار پودا کھائے وہ ہرگز ہماری مسجد کے قریب نہ آئے۔ (مسلم) یعنی " البَصَل، والثُّوم " (پیاز اور لہسن) اور ہر وہ شے جو بدبودار ہو جیسے مولی، کراث وغیرہ اور خاص طور پر تمباکو اور سگریٹ۔ لہسن اور پیاز کو بطور خاص ذکر کیا گیا کیونکہ کھانے میں ان کا بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ بلکہ مسلم شریف میں جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں تو کُراث کا صراحتاً ذکر کیا گیا ہے۔ "جب آپ ﷺ کو کسی آدمی سے ان دونوں پودوں کی بو آتی تو آپ ﷺ کے حکم سے اسے بقیع کی طرف نکال دیا جاتا۔" کیونکہ اس سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے اور اسی طرح فرشتوں کو بھی اس سے تکلیف ہوتی ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا ہے۔ "البَقِيع"۔ یعنی نبی ﷺ نے اسے مسجد سے نکالنے پر اکتفا نہ کرتے بلکہ بطورِ سزا اسے مسجد سے دور بقیع تک پہنچا دیتے۔ ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ مَیں رسول اللہ ﷺ کے دور میں دیکھتا کہ اگر کسی شخص سے بو آتی تو اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے بقیع کی طرف نکال دیا جاتا۔ " فمن أكَلَهُمَا، فَلْيُمِتْهُمَا طَبْخَا "۔ یعنی جو انہیں کھانا چاہتا ہے وہ انہیں پکا کر ان کی بو مار دے۔ کیونکہ پکانے سے ان کی بدبو جاتی رہتی ہے اور بو ختم ہو جانے کے بد مسجد میں آنا جائز ہے کیونکہ ممانعت کی علت باقی نہیں رہتی۔ معاویہ بن قرۃ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "اگر تمہیں ان کو کھانا ہی ہو تو پکا کر ان کی بو کو مار دو"۔ اس حدیث کو ابو داؤد رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔ یہ نبی ﷺ سے ثابت سنت ہے۔ پکا کر ان کی بو مارنے کا حکم اس وقت کے لیے ہے جب اس کا نماز یا نماز کےعلاوہ کسی اور غرض سے مسجد میں آنے کا ارادہ ہو۔ تاہم اگر نماز کا وقت نہ ہو تو پھر ان کو کچا کھا لینے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ان کو کھانا تو مباح ہے۔ پکانے کا حکم صرف اس لیے ہے کہ (کچا کھانے سے بدبو پیدا ہوتی ہے اور آس پاس کے لوگوں کو) اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ دیکھیے: إكمال المعلم (2/500)، مرقاة المفاتيح (2/617)، مرعاة المفاتيح (/448 ، 449) اور شرح رياض الصالحين لابن عثيمين(6 /447)۔