ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دو آدمی سفر پر نکلے۔ جب نماز کا وقت ہوا، تو ان کے پاس پانی نہیں تھا۔ چنانچہ دونوں نے پاک مٹی سے تیمم کر لیا اور نماز ادا کر لی۔ پھر جب ان کو پانی ملا، تو ان میں سے ایک نے دوبارہ وضو کیا اور نماز دوہرائی، جب کہ دوسرے نے نہیں دوہرائی۔ جب وہ دونوں رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور یہ بات آپ کے سامنے رکھی، تو جس نے نماز نہیں دوہرائی تھی، اس سے فرمایا: "تو نے سنت کو پا لیا اور تیری نماز تجھے کافی ہو گئی"۔ اور جس نے وضو اور نماز کو دوہرایا تھا، اس سے فرمایا: "تیرے لیے دوہرا اجر ہے"۔
شرح الحديث :
جلیل القدر صحابی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اس حدیث میں یہ بیان کر رہے ہیں کہ: (دو آدمی سفر پر نکلے اور نماز حاضر ہو گئی) یعنی نماز کا وقت ہو گیا۔(ان دونوں کے پاس پانی نہیں تھا ، انہوں نے پاک مٹی سے تیمم کر لیا) یعنی اپنے چہرے پر مخصوص انداز سے اس کو پھیر لیا یا دونوں نے مٹی سے تیمم کر لیا۔(دونوں نے نماز پڑھ لی اور جب انہیں پانی ملا تو ایک نے وضو اور نماز کو دوہرا لیا)اس خیال سے کہ پہلی والی باطل ہو گئی ہے یا پھر احتیاطاً ایسا کیا۔(اور دوسرے نے نہ دوہرائی) یہ خیال کرتے ہوئے کہ پہلی والی صورت بھی ٹھیک تھی۔(پھر وہ دونوں رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور آپﷺ کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا) یعنی جو ان کے ساتھ ہوا تھا۔جس نے (وضو اور نماز)نہیں دوہرائی تھی اس سے رسول اللہﷺ نے فرمایا: (أصبت السنة) (تو نے سنت کو پایا)یعنی شریعت سے ثابت سنت کو پایا ہے۔اور (تیری نماز تجھے کافی ہے)یہ ماقبل کی وضاحت اور تاکید ہے۔جبکہ جو دوسرا تھا: (وقال للذي توضأ) (جس نے وضو کیا تھا اس سے فرمایا)یعنی نماز کے لیے (وأعاد) (اور دوہرایا؍لوٹایا)یعنی نماز کو اس کے وقت میں ہی۔ (تیرے لیے دوہرا اجر ہے)یعنی تیری نماز کا دوہرا اجر ہے۔ان دونوں کے عمل کے صحیح ہونے کی وجہ سے ان کے عمل پر ثواب جاری ہوا ہے اور بیشک اللہ تعالیٰ کسی کے اچھے عمل کے اجر کو رائیگاں نہیں کرتے۔اور اس میں یہ بھی اشارہ موجود ہے کہ عمل کی ادائیگی میں احتیاط افضل ہے جیسا کہ رسو ل اللہﷺ نے فرمایا: (جوتجھے شک میں ڈال دے اسے چھوڑ دے اور وہ اختیار کر جس میں شک نہیں)