البصير
(البصير): اسمٌ من أسماء الله الحسنى، يدل على إثباتِ صفة...
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے (انھیں) بتایا کہ انھوں نے نبی اکرمﷺ سے ایسی عورت کے بارے میں پوچھا جو نیند میں وہی چیز دیکھتی ہے جو مرد دیکھتا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب عورت یہ چیز دیکھے تو غسل کرے ۔ ‘‘حضرت ام سلیم ؓ نے فرمایا: میں اس بات پر شرما گئی۔(پھر) آپ بولیں : کیا ایسا بھی ہوتا ہے؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں، (ورنہ) پھر مشابہت کیسے پیدا ہوتی ہے؟ مرد کا پانی (منی) گاڑھا سفید ہوتا ہے اور عورت کا پانی پتلا اور زرد ہوتا ہے ، ان دونوں میں سے جو بھی غالب ہوجائے یا سبقت لے جائے تو اسی سے (بچے کی) مشابہت ہوتی ہے۔‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے نبی کریمﷺ سے اس عورت کے بارے میں سوال کیا جو نیند میں وہ کچھ دیکھے جو مرد دیکھتا ہے (تو اس کا کیا حکم ہے؟) یعنی جیسے خواب میں مرد جماع کا منظر دیکھتا ہے اسی طرح عورت بھی اگر دیکھے تو؟ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا: «إذا رَأَت ذلك المرأة فَلْتَغْتَسِل»یعنی جب عورت وہ کچھ دیکھے جو مرد دیکھتا ہے تو غسل کرے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر اس کو انزال ہو جائے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے : فرمایا: "قال: نعم إذا رأت الماء" ہاں اگر وہ پانی دیکھے ۔یعنی نیند سے بیداری پر اگر منی دیکھے۔ اگر نیند میں احتلام دیکھے لیکن منی خارج نہ ہو تو اس پرغسل نہیں کیوں کہ یہ حکم انزال کے ساتھ معلق ہے۔ اسی لیے رسول اللہﷺ سے ایسے شخص کےبارے میں سوال کیا گیا جو تری دیکھے لیکن اس کو احتلام یاد نہ ہو تو فرمایا: وہ غسل کرے۔ اورایسا شخص جو احتلام دیکھے لیکن تری نہ دیکھے تو اس کے بارے میں فرمایا کہ اس پر غسل نہیں۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اگر عورت بھی یہ دیکھے تو اس پر غسل ہے؟ فرمایا : ’’ہاں۔ بے شک عورتیں اصل خلقت وطبیعت میں مردوں کی ہم مثل ہیں۔‘‘ اس کو احمد و ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے جب رسول اللہ ﷺ سے اس طرح جواب سنا تو اس سے بڑی شرم محسوس کی اور کہنے لگیں : "وهل يَكون هذا؟ " (کیا ایسے بھی ہوتا ہے؟) یعنی کیا یہ ممکن ہے کہ جیسے مرد کو احتلام ہوتا ہے ویسے ہی عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "نعم" (ہاں) یعنی عورت کو بھی احتلام اور انزال ویسے ہی ہوتا ہے جیسے مرد کو ہوتا ہے، اس میں کوئی فرق نہیں۔ پھر آپ ﷺ نے اس کی توجیہہ بیان کی کہ: "فمِن أين يُكون الشَّبَه؟" (پھر یہ مشابہت کیسے پیدا ہوتی ہے؟)صحیحین کی ایک اور روایت میں ہے: "فَبِم يَشْبِهُها ولدُها"(تو بچے کی مشابہت پھر کیسے ہوتی ہے) یعنی بچہ ماں کے مشابہ کیسے ہوتا ہے اگر اس کی منی خارج نہیں ہوتی ؟ پھر نبی کریمﷺ نے مرد اور عورت کی منی کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا : "إن ماء الرَّجُل غَليِظ أبْيَض، وماء المرأة رقِيق أصْفَر" (مرد کا پانی (منی) گاڑھا سفید ہوتا ہے اورعورت کا پانی پتلا اور زرد ہوتا ہے) یہ وصف اعتبار غالب کے لحاظ سے ہے یا پھر اس کی اصل حالت کے اعتبار سے۔ کیوں کہ بسااوقات آدمی کی منی بیماری کی وجہ سے پتلی ہو جاتی ہے اور کثرتِ جماع کی وجہ سے سرخ اور عورت کی طاقت کی وجہ سے منی سفید ہو جاتی ہے۔ علمائے کرام نے مرد کی منی کو پہچاننے کی دیگر علاماتیں بھی بیان کی ہیں جیسا کہ اس کے خروج کے وقت اچھال پے اچھال پایا جاتا ہے اور قرآن کریم نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: (من ماء دافق) (اچھلتے پانی سے) یہ شہوت اور لذت کے ساتھ خارج ہوتا ہے اور جب یہ خارج ہوتا ہے تو جوش بھی ختم ہو جاتا ہے اور اس کی بوکھجور کے گودے کی طرح ہوتی ہے۔ جب کہ عورت کی منی کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس میں دو خاصیتیں پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کے ذریعے پہچان سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس کی بو بھی آدمی کی منی کی بو کی طرح ہوتی ہے اور دوسری اس کے خارج ہونے سے لذت محسوس ہوتی ہے اور خروج کے بعد شہوت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ منی کے ثبوت کے لیے سابقہ تمام شروط کا اکٹھا ہونا ضروری نہیں بلکہ اس کے لیے اتنا ہی کافی کہ کسی ایک علامت سے اس کے منی ہونے کا حکم ثابت ہو جائے۔ اور اگر ان علامات میں سےکوئی علامت موجود نہ ہو تو اس کا حکم منی کا نہیں ہوگا اور ظن غالب بھی یہی ہے کہ وہ منی نہیں ہو گی۔ ان میں سے کوئی ایک بلند ہو جائے یا سبقت لے جائے تو اس سے مشابہت پیدا ہوتی ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے: "غَلَب" (غالب آجائے) یعنی مرد یا عورت کے پانی میں سے کسی کی منی کا غالب آنا۔ جس کی منی دوسرے پر زیادتی یا طاقت کے اعتبار سے غالب ہو جائے تو مشابہت بھی اسی سے ہوگی۔ یا ان دونوں میں سے جو انزال میں سبقت لے گیا اس سے مشابہت ہو گی۔ بعض علماء نے یہ کہا : ’علا ‘بمعنی ’سبق ‘ہے ۔اگر مرد کی منی سبقت لے جائے تو بچہ مرد کے مشابہ ہو گا اور اگر عورت کی منی غالب ہو جائے تو اس کے مشابہ ہو گا کیوں کہ مرد اورعورت دونوں کا پانی رحم میں اکٹھا ہوجاتا ہے۔ عورت کو انزال ہوتا ہے اور مرد کو بھی انزال ہوتا ہے اوران دونوں کا پانی جمع ہوتا ہے اور ان کے اجتماع سے بچہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (إنا خلقنا الإنسان من نُطفة أمْشَاج) [الإنسان 1 ، 2] (بے شک ہم نے انسان کو مِلے جُلے نطفہ سے پیدا کیا)یعنی مرد اورعورت کے اختلاط والے پانی (منی) سے۔