الرقيب
كلمة (الرقيب) في اللغة صفة مشبهة على وزن (فعيل) بمعنى (فاعل) أي:...
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے بہت سے لوگوں کو بلند کرتا ہے اور اسی کتاب کے ذریعے بہت سے لوگوں کو پست و ذلیل کرتا ہے۔“
عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے بہت سے لوگوں کو بلند کرتا ہے اور اسی کتاب کے ذریعے بہت سے لوگوں کو پست و ذلیل کرتا ہے"۔ یعنی جو لوگ اس قرآن کو سیکھتے ہیں، اس کی تلاوت کرتے اور پڑھتے ہیں، ان میں سے بعض کو اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں بلندیاں عطا فرماتا ہے اور بعض کو دنیا و آخرت میں ذلیل کرتا ہے۔ جو قرآنی کی بتائی ہوئی باتوں کی تصدیق کرکے اس کی احکامات پر عمل کرتا ہے اور نواہی سے بچتا ہے، اس سے راہ نمائی حاصل کرتا ہے، اس کے بیان کردہ اخلاق فاضلہ کے مطابق خود کو ڈھالتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا و آخرت میں بلندیاں عطا کرتا ہے؛ کیوںکہ یہی قرآن اصل علم، علم کا سرچشمہ اور پورا علم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”یرفَعِ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ“ (المجادلة: 11)۔ (اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے، جو ایمان ﻻئے ہیں اور جو علم دیے گئے ہیں، درجے بلند کر دے گا) اور آخرت میں اس کے ذریعے بہت ساری قوموں کو نعمتوں والی جنت میں بلندیاں عطا کریں گے۔ جہاں تک ان لوگوں کی بات ہے، جنھیں اللہ قرآن کے ذریعے ذلیل کرتا ہے، تو یہ وہ لوگ ہیں، جو اس کی تلاوت بہتر انداز میں کرتے ہیں؛ لیکن اس سے تکبر کرتے ہیں، اس کی بتائی ہوئی باتوں کی تصدیق نہیں کرتے، اس کے احکامات پر عمل نہیں کرتے، اس کی خبروں کو جان بوجھ کر جھٹلاتے ہیں، جیسے گزشتہ انبیا کے واقعات یا آخرت کے بارے میں قرآن کی خبریں وغیرہ۔ ان تمام امور میں شک و شبہ کی روش اپناتے ہیں-والعیاذ باللہ- اور دل سے یقین نہیں کرتے۔ بسا اوقات ان کا یہ جان بوجھ کر انکار کا رویہ اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے بھی اس کا انکار کرتے ہیں، اس کے احکامات سے روگردانی کرتے ہیں، اوامر پر عمل نہیں کرتے اور نہ ہی ممنوعات سے بچتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں رسوا کرے گا۔ والعیاذ باللہ!