الله
أسماء الله الحسنى وصفاته أصل الإيمان، وهي نوع من أنواع التوحيد...
حضرت عائشہ نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ بیان کرتی ہیں کہ حولاء بنت تُوَیت بن حبیب بن اسد بن عبدالعزیٰ ان کے پاس ایسے وقت میں گزریں جب رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تھے، میں نے کہا کہ یہ حولاء بنت تویت ہیں اور لوگوں کا خیال ہے کہ یہ رات بھر نہیں سوتیں، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: رات بھر نہیں سوتی! تم عمل وہی اختیار کرو جس کی تم میں طاقت ہو کیوں کہ اللہ تعالیٰ (ثواب دینے سے) نہیں تھکتا یہاں تک کہ تم خود ہی اکتا جاؤ۔‘‘
ایک دفعہ حولاء بنت تویت رضی اللہ عنہا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس سے گزریں تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ کو بتایا کہ : یہ حولاء بنت تویت رضی اللہ عنہ ہیں اور یہ ساری رات نماز پڑھتی رہتی ہیں سوتی ہی نہیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اُن کے پوری پوری رات کے قیام کو ناپسند کیا اور فرمایا: «خذوا مِن العمل ما تُطِيقون» (صرف اتنا ہی عمل کرو جتنی طاقت رکھتے ہو) نبی کریم ﷺ نے اس عورت کو اتنے کثیر عمل سے روکا کہ جو مشقت کا باعث ہو اور مستقبل میں جس کے کرنے سے عاجز آ جائے اور اس پر مداومت نہ کرسکے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے یہ حکم دیا کہ ہمیں اتنا ہی عمل کرنا چاہیے جتنی طاقت ہو۔ «فواللهِ لا يسأمُ اللهُ حتى تسأموا» (اللہ کی قسم! اللہ (دینے سے) نہیں تھکتا یہاں تک کہ تم ہی اکتا جاؤ) یعنی اللہ عزوجل تمہارے عمل کے مطابق تمہیں ثواب عطا کر دے گا جب تک اس عمل پر ہمیشگی رہے گی اور جب بندہ کسی عمل سے اکتا جائے، تھک جائے، اس کو منقطع کر دے اور ترک کر دے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ثواب کے سلسلے کو منقطع کر دیتاہے۔ کیوں کہ بندے کو اس کے عمل کے مطابق جزا ملتی ہے اور اگر بغیر عذر، مرض اور سفر کے کسی عمل کو چھوڑ دیا جائے تو اس کا ثواب بھی ختم کر دیا جاتا ہے۔ اور یہی اکتاہٹ کا راجح معنی ہے جو اس حدیث کے ظاہر سے سمجھ آرہا ہےجس سے اللہ متصف ہے۔اور اللہ تعالیٰ کی اکتاہٹ ہماری اکتاہٹ کی طرح نہیں ہے، کیوں کہ ہماری اکتاہٹ تھکاوٹ اور سستی ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کی اکتاہٹ ایک ایسی صفت ہے جس سے اللہ عزوجل مختص ہےاور اس کے شایان شان ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو تھکاوٹ اور سستی نہیں لاحق ہوتی۔