السيد
كلمة (السيد) في اللغة صيغة مبالغة من السيادة أو السُّؤْدَد،...
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ ایک رات اپنے کھجوروں کے کھلیان میں قرآن پڑھ رہے تھے کہ ان کا گھوڑا بدکنے لگا، آپ رضی اللہ عنہ نے پھر پڑھا وہ پھر بدکنے لگا، آپ نے پھر پڑھا وہ پھر بدکنے لگا، اسید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں ڈرا کہ کہیں وہ یحییٰ کو کچل نہ ڈالے، میں اس کے پاس جاکر کھڑا ہو گیا، میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سائبان کی طرح کوئی چیز میرے سر پر ہے، وہ چراغوں سے روشن ہے اور وہ اوپر کی طرف چڑھنے لگا یہاں تک کہ میں اسے پھر نہ دیکھ سکا- صبح کے وقت میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا: اے اللہ کےرسول! میں رات کے وقت اپنے کھلیان میں قرآن پڑھ رہا تھا کہ اچانک میرا گھوڑا بِدکنے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ابن حضیر پڑھتے رہو“ انھوں نےعرض کیا: میں پڑھتا رہا وہ پھر اسی طرح بِدکنے لگا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ابن حضیر پڑھتے رہو“ انھوں نے عرض کیا کہ میں پڑھتا رہا وہ پھر اسی طرح بدکنے لگا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ابن حضیر پڑھتے رہو“ ابن حضیر کہتے ہیں کہ میں پڑھ کر فارغ ہوا تو یحییٰ اس کے قریب تھا مجھے ڈر لگا کہ کہیں وہ اسے کچل نہ دے اور میں نے ایک سائبان کی طرح دیکھا کہ اس میں چراغ سے روشن تھے اور وہ اوپر کی طرف چڑھا یہاں تک کہ اسے میں نہ دیکھ سکا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ فرشتے تھے جو تمہارا قرآن سنتے تھے اور اگر تم پڑھتے رہتے تو صبح لوگ ان کو دیکھتے اور وہ لوگوں سے پوشیدہ نہ ہوتے۔
اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ ایک رات اپنے اس مکان میں قرآن پڑھ رہے تھے جہاں کھجوروں کی ذخیرہ اندوزی کرتے تھے، ان کا گھوڑا ایک کنارے بندھا ہوا تھا، ان کا بیٹا یحیٰ اسی کے قریب سویا ہوا تھا، جب انہوں نے تلاوت کی تو ان کا گھوڑا کود پھاند مچانے لگا، پھر جب وہ خاموش ہوئے تو گھوڑا بھی ساکت ہو گیا، دوبارہ انہوں نے پڑھنا شروع کیا پھر وہ کود پھاند مچانے لگا، اس طرح تین بار ہوا تو اسیدرضی اللہ عنہ ڈرے کہ کہیں ان کا بیٹا یحیٰ گھوڑے کے پاؤں سے روندا نہ جائے، انہوں نے تلاوت ترک کردی اور گھوڑے کے پاس جا کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کہ وہ کیوں اچھل کود مچا رہا ہے، انہوں نے اس کے اوپر ایک بدلی کی طرح دیکھا جس میں چراغ کے مشابہ کچھ چیزیں تھیں، وہ بدلی آسمان کی طرف چڑھنے لگی یہاں تک کہ وہ اسے دیکھنے پر قادر نہ رہے، صبح اسید رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے اوپر بیتا حادثہ کہہ سنایا تو نبی ﷺ نے ان کا خوف دور کرنے، ان کے اس بلند مرتبہ سے آگاہ کرنے اور ان کی طمانیت و سکون کو مزید مؤکد کرنے کے لیے ان سے فرمایا: ”ابن حضیر پڑھتے رہو“ تاکید کے لیے آپ ﷺ نے یہ تین مرتبہ فرمایا، یعنی اسی طرح تلاوت کرتے رہو، اس پر مداومت برتو جس کے سبب یہ عجیب وغریب واقعہ پیش آیا (در اصل آپ ﷺ نے) انہیں اس بات کا درس دیتے ہوئے یہ کہا کہ اس طرح کی کوئی چیز مستقبل میں اگر نمودار ہوتو اپنی تلاوت کو ترک مت کرنا بلکہ اس عظیم فضیلت کی خاطر مسلسل تلاوت کرتے رہنا، پھر آپ ﷺ نے بتایا کہ یہ فرشتے تھے جو تلاوتِ قرآن کو سن رہے تھے اور اگر وہ صبح تک پڑھتے رہتے تو فرشتے صبح تک سنتے رہتے، لوگ ان کو دیکھتے اور وہ لوگوں سے پوشیدہ نہ ہوتے۔