البحث

عبارات مقترحة:

العظيم

كلمة (عظيم) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعيل) وتعني اتصاف الشيء...

المنان

المنّان في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعّال) من المَنّ وهو على...

المجيد

كلمة (المجيد) في اللغة صيغة مبالغة من المجد، ومعناه لغةً: كرم...

عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ تین اوقات ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں روکتے تھے کہ ہم ان میں نماز پڑھیں یا اپنے مردوں کو قبروں میں اتاریں؛ جب سورج چمکتا ہوا طلوع ہورہا ہو، یہاں تک کہ وہ بلند ہوجائے، جب دوپہر کو ٹھہرنے والا (سایہ) ٹھہر جائے، حتیٰ کہ سورج (آگے کو) جھک جائے اور جب سورج غروب ہونے کے لیے جھک جائے، یہاں تک کہ وہ (پوری طرح) غروب ہوجائے۔

شرح الحديث :

عقبہ رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ تین گھڑیوں میں رسول اللہنے صحابہ کو نماز پڑھنے اور مردوں کو دفن کرنے سے منع فرمایا ہے۔ یہاں گھڑیوں (ساعات) سے مراد اوقات ہیں۔ یعنی ان تین اوقات میں رسو ل اللہ نے نماز اور تدفین سے منع کیا ہے: پہلا وقت: جب سورج طلوع ہو رہا ہو، یہاں تک کہ اچھی طرح ظاہر اور بلند ہو جائے اور اس کی روشنی افق پر پھیل جائے۔ ایک روایت میں ہے کہ سورج ایک نیزے کے برابر اونچا ہوجائے۔ جب کہ ایک روایت میں ہے: (فترتفع قَيْسَ رُمْح أو رُمْحين) (کہ سورج ایک نیزہ یا دونیزے کے برابر بلند ہو جائے) یہ روایت ابوداؤد میں عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ ’رمح‘(نیزہ) اہل عرب کے یہاں معروف ہے۔ یہ ایک ہتھیار ہے جسے وہ اپنی جنگوں میں استعمال کرتے تھے۔ دوسرا وقت: جس وقت سورج آسمان کے درمیان میں پہنچ جائے۔ جب سورج وسط آسمان میں پہنچ جاتا ہے، تو اس کے ڈھلنے تک سایے کی حرکت سست پڑ جاتی ہے، چںانچہ غور سے دیکھنے والے کو لگتا ہے کہ حرکت رکی ہوئی ہے، حالاں کہ وہ جاری ہوتی ہے، البتہ وہ دھیمی ہوتی ہے، اسی مشاہداتی ٹھہراؤ کو "قائم الظھیرۃ" کہا جاتا ہے۔ اس وقت نفل نماز پڑھنا ممنوع ہے، جب تک سورج درمیان آسمان سے مغرب کی طرف جھک نہ جائے اور مشرق کی طرف سایہ نمودار نہ ہوجائے۔ اسی کو "فئ زوال" کہا جاتا ہے۔ یہ وقت مختصر ہوتا ہے۔ بعض علما نے تانچ منٹ اور بعض نے دس منٹ کہا ہے۔ تیسرا وقت: جب سورج غروب ہونے لگے، اس وقت سے سورج غروب ہونے تک۔ یہ تین اوقات ہیں، جن میں دو کام ممنوع ہیں: پہلا کام: نفل نماز پڑھنا، اگرچہ نفل"ذوات الاسباب" میں سے ہو۔ جیسے تحیۃ المسجد، تحیۃ الوضوء اور نماز کسوف۔ کیوں کہ حدیث عام ہے۔ جب کہ عموم حدیث کے باوجود ان اوقات میں فرائض کی ادائیگی حرام نہیں ہے؛ کیوں کہ اس بات کا عموم ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے خاص ہو جاتا ہے، جس میں ہے: (من نام عن صلاة أو نسيها فليصلها إذا ذكرها) (جو نماز کے وقت سو جائے یا بھول جائے، تو جب یاد آئے، پڑھ لے)متفق علیہ۔ دوسرا کام: مردوں کو دفنانا۔ ان ممنوعہ اوقات میں میت کی تدفین جائز نہیں۔ اگر میت ان تین ممنوعہ اوقات میں قبرستان پہنچ گئی ہو تو انتظار کیا جائے گا اور ممنوع وقت نکلنے کے بعد ہی تدفین کی جائے گي۔ البتہ اگر سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی تدفین کا عمل شروع ہو جائے، لیکن کسی عارض کی وجہ سے تدفین میں دیر ہو جائے اور دوران تدفین ہی سورج طلوع ہو جائے تو تدفین کا عمل جاری رہے گا، رکنے کی ضرورت نہیں۔ یا زوال سے پہلے تدفین کا عمل شروع ہو جائے، لیکن کسی عارض کی وجہ سے تدفین میں دیر ہو جائے اور دوران تدفین ہی ممنوعہ وقت آجائے تو تدفین کا عمل جاری رہے گا، رکنے کی ضرورت نہیں۔ اسی اگر عصر کی نماز کے بعد تدفین کا عمل شروع ہو جائے، لیکن کسی عارض کی وجہ سے تدفین میں دیر ہو جائے اور دوران تدفین ہی ممنوعہ وقت آجائے تو تدفین کا عمل جاری رہے گا، رکنے کی ضرورت نہیں۔ کیوں کہ ان ممنوعہ اوقات میں تدفین کا ارادہ نہیں تھا۔ جیسے کسی نے نفل نماز شروع کی اور نماز ہی میں تھا کہ ممنوعہ وقت داخل ہوگیا، تو نماز مکمل کرے گا۔ علما کے یہاں قاعدہ ہے: اس عمل کا جاری رکھنا قابل درگزر ہے، جس کا شروع کرنا قابل درگزر نہیں ہوتا۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية