المقتدر
كلمة (المقتدر) في اللغة اسم فاعل من الفعل اقْتَدَر ومضارعه...
عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناقوس بنانے کا حکم فرمایا تاکہ لوگوں کو نماز کی خاطر جمع کرنے کے لئے اسے بجایا جائے، تو میں نے خواب میں ایک شخص کو ہا تھ میں ناقوس اٹھائے ہوئے دیکھا، میں نے اس سے پوچھا: اللہ کےبندے کیا اسے فروخت کروگے؟ اس نے کہا: تم اسے کیا کرو گے؟ میں نے کہا: ہم اس کے ذریعے لوگوں کو نماز کے لئے بلا ئیں گے، اس شخص نے کہا: کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتا دوں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں ضرور بتائیے، تو اس نے کہا: تم اس طرح کہو: ’’اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لا إِلَهَ إِلا اللّٰہُ‘‘ (اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کو ئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، نماز کے لئے آؤ، نماز کے لئے آؤ، کامیابی کی طرف آؤ، کامیابی کی طرف آؤ) پھر وہ شخص مجھ سے تھوڑا پیچھے ہٹ گیا، زیادہ دور نہیں گیا پھراس نے کہا: جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو اس طرح کہو: ’’اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ، (اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، یقینا نماز کھڑی ہو گئی، یقینا نماز کھڑی ہو گئی، [اور ایک روایت میں ہے کہ اگر صبح کی اذان ہو تو ’’الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ، الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ’’ (نماز نیند سے بہتر ہے، نماز نیند سے بہتر ہے) کہو] ’’اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ‘‘ (اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے سوا کو ئی معبود برحق نہیں۔) پھر جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور جو کچھ میں نے دیکھا تھا اسے آپ سے بیان کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘ان شاء اللہ یہ خواب سچا ہے’’، پھر فرمایا: ‘‘تم بلال کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور جو کلمات تم نے خواب میں دیکھے ہیں وہ انہیں بتاتے جاؤ تاکہ اس کے مطابق وہ اذان دیں کیونکہ ان کی آواز تم سے زیادہ بلند ہے’’۔ چناں چہ میں بلال کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا، میں انہیں اذان کے کلمات بتاتا جاتا تھا اور وہ اسے پکارتے جاتے تھے۔ وہ کہتے ہیں: جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے گھر میں سنا تو وہ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے نکلے اور کہہ رہے تھے: اے اللہ کے رسول! اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے بھی اسی طرح دیکھا ہے جس طرح عبداللہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘اللہ کا شکر ہے۔‘‘
یہ حدیث شریف اذان کا قصہ بیان کرتی ہے، اور وہ یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ نصاریٰ کی طرح ایک ناقوس اپنا لیا جائے تاکہ اس کی آواز پر لوگ نماز کے لئے اکٹھا ہو جایا کریں، پھر آپ نے ایسا نہیں کیا اس لئے کہ وہ ان کے شعار و خصائص میں سے تھا، تو عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نامی ایک صحابیٔ رسول نے خواب دیکھا کہ ایک شخص ناقوس بیچ رہا ہے، انہوں نے سوچا کہ اس سے خرید لیں تاکہ اس کے ذریعے لوگوں کو نماز کے لئے اکٹھا کریں، تو اس شخص نے ان سے کہا : کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتا دوں؟ اور اس نے انھیں اذان کے جملے سکھلائے۔ صبح ہوئی تو عبداللہ بن زید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے خواب بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتلایا کہ یہ سچا خواب ہے اور انہیں حکم دیا کہ اذان کے وہ کلمات (جو خواب میں دیکھے ہیں) بلال کو پڑھا دیں تاکہ اس کے مطابق وہ اذان دیں کیونکہ ان کی آواز ان سے بہتر تھی۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جب اسے سنا تو وہ بھی تشریف لائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ انہوں نے بھی اسی طرح خواب دیکھا ہے۔