الرب
كلمة (الرب) في اللغة تعود إلى معنى التربية وهي الإنشاء...
ایک فلسفیانہ، ادبی اور الحادی مکتبِ فکر جو اپنی توجہ فرد کے وجود اور اس کی خصوصیات کو ظاہر کرنے پر مرکوز رکھتا ہے۔
’وُجودیہ‘ ایک الحادی مکتبِ فکر اور اباحیت پر مبنی فلسفیانہ و ادبی رجحان ہے، یہ ایک گمراہ کُن نظریے سے عبارت ہے، جو بظاہر انسانی قدرو قیمت کی وکالت کرتا ہے؛ اس نظریے کی رُو سے انسان غور و فکر، آزادی، ارادے و اختیار کا حامل ہے، اُسے کسی ہدایت کار کی ضرورت نہیں، اُسے خود اپنے آپ کو ایکسپوز اور اپنے وجود کو خود ثابت کرنا چاہیے، اپنی ذات سازی اور ارادے کی تشکیل خود کرنی چاہیے، وہ خود اپنے اعمال کی تخلیق، اُس کی نوعیت اور ماہیت کی تحدید آزادانہ طور پر خود کرے، اس میں اُسے کسی خالق سے جُڑنے اور اپنے اختیار سے پرے اخلاقیات و اقدار کی چنداں ضرورت نہیں۔ اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ زندگی کو سنوارنے والے اقدار کا اختیار اپنی مرضی سے کرے۔ یہ مغربی ادب میں وجود پذیر بیسویں صدی کا مشہور ترین مکتبِ فکر ہے۔ تاہم فردِ بشر اپنا وجود کیسے ثابت کرے، اِس کی کیفیت میں اُن کے ہاں خود اختلاف پایا جاتا ہے؛ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ’’فرد سماجی بندھنوں، یا دین اور اخلاقیات کی رُو رِعایت کیے بغیر اپنے آپ کو خواہشاتِ نفس کے پیچھے کھلا چھوڑ کر اپنے حقیقی وجود کو ثابت کرے گا۔‘‘ اُن میں سے کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایسا خوف وخطرات کا سامنا کرنے اور آزمائشوں اور مصائب سے نبرد آزما ہونے سے پورا ہوگا۔ اُن کی اس فکری کجی کا اخلاقی ابتری، جنسی اباحیت پسندی، حرمتوں کی پامالی اور فساد وبگاڑ کو رواج دینے میں بڑا ہاتھ رہا ہے۔ مغربی مفکرین کا خیال ہے کہ ’سورین کیرکگارڈ‘ (1813 - 1855م) اس مکتبِ فکر کا بانی ہے۔ اس کے معاصر قائدین میں سے فرنسیسی فلسفی’جان پال سارٹر‘ بھی ہے، جس کی پیدائش 1905عیسوی میں ہوئی، وہ ایک مُلحد تھا۔
’وُجودیہ‘ (واو کے پیش کے ساتھ) وجود کی طرف منسوب ہے۔ اس کا اطلاق ذات، اُس کے ثبوت اور کسی شے کے حصول و دریافت وغیرہ پر ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص اپنی مُراد کو حاصل کرلے اور اس سے ہم کنار ہوجائے، تو کہا جاتا ہے ’’وَجَدَ مَطلوبَهُ، يَـجِدُهُ، وُجوداً‘‘ کہ اُس نے اپنے مطلوب کو پالیا۔ ’موجود‘ معدوم کی ضد ہے۔