اِقالہ، عقد کو فسخ کرنا۔ (إِقالَةٌ)

اِقالہ، عقد کو فسخ کرنا۔ (إِقالَةٌ)


أصول الفقه

المعنى الاصطلاحي :


فریقین کی باہمی رضامندی سے ہونے والے لازم شدہ معاملے کو ختم کر کے اس کا حکم اٹھا لینا۔

الشرح المختصر :


’إِقَالَہ‘ کی حقیقت باہمی رضا مندی سے عقد کو فسخ کرنا اور اس کے اثر کو باطل قرار دینا ہے، جیسے بیع اور اجارہ وغیرہ۔ بیع ختم کرنے کے نتیجے میں خریدار کو قیمت اور بیچنے والے کو سامان واپس لوٹا دیا جائے۔ بیع میں اقالے کی صورت یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی سے کوئی چیز خرید کر نادم ہو جائے خواہ ایسا اس چیز میں دھوکہ ظاہر ہونے کی وجہ سے ہو یا اس چیز کی ضرورت ختم ہونے کی وجہ سے، تو بیچنے والے کو اپنی چیز لوٹا دی جائے اور بیچنے والا اسے قبول کر لے۔ ’اقالہ‘ ہر اس چیز سے منعقد ہو جاتا ہے جو اس کے مقصودی معنیٰ پر دلالت کرتی ہے، اگرچہ وہ فریقین میں سے ہر ایک کے یہ کہہ دینے سے ہو کہ ”ہم نے اقالہ کر لیا“ یا ”ہم نے فسخ کر لیا“۔ اقالہ کی شرائط درج ذیل ہیں: 1- فریقین کی اہلیت، چنانچہ بچے اور مجنون کا اقالہ درست نہیں۔ 2- اقالہ کرنے والوں کی رضا مندی، اگر فریفین پر زبردستی کی گئی یا ان میں سے کسی ایک پر زبردستی کی گئی ہو تو اقالہ درست نہیں ہوگا۔ 3- عقد اقالہ کے قابل بھی ہو، جیسے بیع اور اجارہ۔ وقف وغیرہ میں اقالہ درست نہیں۔ اس لئے کہ وقف میں اقالہ اس کے مقصودِ شرعی کے خلاف ہے۔

التعريف اللغوي المختصر :


اِقَالَہ: یعنی فسخ کرنا، ختم کرنا۔ إِقَالَہ کا اصل معنی ہے ناپسندیدگی کو دور کرنا۔ بعض اہلِ لغت کا کہنا ہے کہ یہ ’قَوْل‘ سے ہے اس لئے کہ یہ گزشتہ قول کو ختم کردیتا ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ یہ ’قَيْلُولَہ‘ سے ہے اور قیلولہ دوپہر کے وقت آرام کرنے کو کہتے ہیں، تاکہ وہ دن کا دوسرا حصہ آرام سے گزارے۔ لغت میں ’إِقَالَہ‘ گِرانے، توڑنے، باطل کرنے، چھوڑنے اور بدلنے کے معنیٰ میں بھی آتا ہے۔