اپنے دین یا اپنے نظریے کا تابع بنانا۔ (تَدْيِينٌ)

اپنے دین یا اپنے نظریے کا تابع بنانا۔ (تَدْيِينٌ)


أصول الفقه

المعنى الاصطلاحي :


صریح لفظ کے ذریعہ نیت کے ساتھ طلاق دینے والے کے دعوے کو قبول کرنا۔

الشرح المختصر :


کسی شخص کی بات کو بغیر مطلبہ قسم کے ایسی چیز میں قبول کرنا جو اس کے علاوہ کسی اور کو معلوم نہ ہو۔ طلاق کے باب میں اس کا معنی ہے: اس آدمی کی طلاق پر قضاءً حکم جاری کرنا جس نے اپنی بیوی کو ظاہری اور مخصوص الفاظ میں طلاق دیا ہے کہ اس کی طلاق واقع ہوگئی، البتہ عرفاً ودیانۃً طلاق دینے والے کی نیت کے اعتبار سے فیصلہ کرنا۔ مثلاً شوہر اپنی بیوی سے مخاطب ہوکر کہے کہ تم مطلقہ ہو یا تم کو طلاق ہے، پھر کہے میری مراد یہ ہے کہ تم حسی قید (بیڑی) سے آزاد ہو، یا بیوی اس قرض سے آزاد ہے جو کہ اس پر ہے۔ ایسی صورت میں قضاءً اس کی بات قبول نہ ہوگی اس لیے کہ یہ خلافِ ظاہر ہے، البتہ دیانۃً قبول ہے اس لیے کہ اس نے لفظ کو قابل احتمال معنی کی طرف پھیر دیا ہے، اور معاملہ کو اللہ اور اس کے درمیان چھوڑ دیا جائے گا۔

التعريف اللغوي المختصر :


کسی شخص کو اور اس کے عقیدہ میں جس چیز کو وہ صحیح سمجھ رہا ہے اسے اس کے دین کے حوالے کردینا، یہ تصدیق کے معنی مین بھی آتا ہے۔