تَسَلْسُلِ حَوَادِثْ (حوادث کا مسلسل ہونا) (تَسَلْسُلُ الحَوَادِثِ)

تَسَلْسُلِ حَوَادِثْ (حوادث کا مسلسل ہونا) (تَسَلْسُلُ الحَوَادِثِ)


العقيدة

المعنى الاصطلاحي :


اللہ تعالیٰ کے افعال کا ہمیشہ کے لئے مسلسل ہونا اور اللہ تعالیٰ کا ہر فعل سے پہلے اسی کا کوئی اور فعل ہے ۔

الشرح المختصر :


’تسلسل‘: کا لفظ ان مجمل الفاظ میں سے ہے، جنہیں اہل کلام نے ایجاد کیا ہے۔ جب اسے مطلق بولا جاتا ہے تو اس سے مراد نہ ختم ہونے والے امور کی ترتیب ہوتی ہے۔ اس کی تین قسمیں ہیں: پہلی قسم: تسلسلِ ممتنع، یہ وہ تسلسل ہے جو اثر قبول کرنے والی چیزوں میں، کام کرنے والوں میں، علتوں میں، یہ کہ ہر فاعل کوئی دوسرا فاعل ہوتا ہے اس طرح لامتناہی حد تک اُس فاعل کا بھی کوئی اور فاعل ہے! یہ عقلی اعتبار سے صراحۃً اورپھر تمام عقلاء کے ہاں متفقہ طور پر باطل ہے۔ اسی تسلسل میں سے یہ ہے کہ ہر مؤثر کا بھی کوئی مؤثر ہے۔ چنانچہ کہا جاتا تھا کہ ہر حادث کا سبب کوئی حادث ہے اور اُس سبب کا کوئی دوسرا حادث سبب بھی ہے۔ دوسری قسم: تسلسلِ ممکن، یہ تسلسل مفعولات اور پے در پے ہونے والے آثار میں ہوتا ہے۔ بایں طور کہ دوسرا حادث پہلے کسی حادث پر موقوف ہوتا ہے اور پہلا والا حادث اس سے پہلے کسی حادث پر موقوف ہوتا ہے۔ یہ حوادث میں تسلسل ہے۔ اس میں اختلاف ہے اورلوگ اس میں تین قول رکھتے ہیں: پہلا قول: بعض نے کہا ہے کہ یہ مطلقاً جائز ہے یہ محدثین اور فلاسفہ کا قول ہے۔ تاہم اہلِ اسلام، تمام مذاہب والے اور جمہور عقلاء کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز مخلوق، حادث اور عدم سے وجود میں آئی ہے۔ جب کہ فلاسفہ عالم کے قدیم ہونے کے قائل ہیں۔ دوسرا قول: یہ جائز نہیں نہ ماضی میں اور نہ مستقبل میں۔ یہ جہم بن صفوان اور ابی الہذیل العلاّف کا قول ہے۔ تیسرا قول: یہ مستقبل کے بارے میں جائز ہے، جب کہ ماضی کے بارے میں جائز نہیں۔ یہ جہم، ابی الہذیل، جہمیہ، معتزلہ، اشعریہ اور ان کے متبعین میں سے اکثر کا قول ہے۔ تیسری قسم: تسلسلِ واجب، یہ وہ تسلسل ہے جس پر عقل اور شرع دونوں دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے افعال ہمیشہ سے ہیں۔ اور یہ کہ جب بھی جنتیوں کی نعمتیں ختم ہوتی ہے تو اور نعمتیں پیدا کر دی جاتی ہیں، یہ ختم نہیں ہوتیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے افعال میں ازل سے تسلسل ہے، اور ہر کام سے پہلے دوسرا کام ہوتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کسی وقت بھی اپنے کمال، کلام، ارادے اور فعل سے فارغ نہیں رہا ہے۔ حوادث کے دو معنیٰ ہیں: پہلا معنیٰ: جب مطلق کہا جائے تو اس سے مراد مخلوقات ہوتے ہیں، اور کبھی مطلق کہا جائے تو اس سے مراد تجدّد ہوا کرتا ہے۔ اسی سے معلوم ہوا کہ ہر حادث مخلوق نہیں۔ دوسرا معنیٰ: اللہ تعالیٰ کے افعال کا تسلسل اور ہمیشہ کے لئے ان کا ہونا ہے۔ وہ حوادث جو مخلوقات کے معنیٰ میں ہیں، وہ ان اعیان کا تسلسل ہے جو کہ مفعولات ہیں، یہی پُرانی قسم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی فاعلیّۃ کے دوام کے قائل ہونے کا نتیجہ ہے۔ جہاں تک اس کے افراد کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ پہلے معدوم تھے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرا جس میں کائنات کی تخلیق کو فرض کیا جائے لیکن اس سے پہلے اس کا وقوع ممکن ہے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہے۔ یہ تسلسلِ جائز ہے واجب نہیں۔ حوادث کو ازلی ماننے یا یہ کہ اس سے پہلے کوئی نہیں، یہ لازم نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ یا اس کے ہم عصر کوئی ہے، یہ ممنوع نہیں۔ممنوع یہ ہے کہ ماضی میں عین مخلوق کے دوام کا قول کہا جائے یعنی کائنات ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ یہ کفر ہے، اس لئے کہ اس کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کا کوئی خالق نہیں باوجودیکہ یہ عدم سے وجود میں آئی ہے۔