الحفي
كلمةُ (الحَفِيِّ) في اللغة هي صفةٌ من الحفاوة، وهي الاهتمامُ...
اللہ سبحانہ وتعالی کی اطاعت، اس کا حق اور اس کا حکم۔
’الجَنْبُ‘ اللہ کی صفات میں سے کوئی صفت نہیں ہے۔ اللہ تعالی کے اس ارشاد: [أَنْ تَقُولَ نَفْسٌ يَا حَسْرَتا على ما فَرَّطْتُ في جَنْبِ اللهِ] ”(ایسا نہ ہو کہ) کوئی شخص کہے ہائے افسوس! اس بات پر کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے حق میں کوتاہی کی۔“ میں لفظ ”جَنْب“ سے مراد اطاعت اور حکم (یعنی اللہ کی اطاعت اور اس کا حکم) ہے، جیسا کہ اسلاف نے اس کی تفسیر بیان کی ہے۔محض اضافت میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے یہ لازم آئے کہ اللہ تعالی کی طرف مضاف شے اس کی صفت ہوتی ہے۔ بلکہ کبھی اللہ تعالی کی طرف اس کی تخلیق کردہ اشیا اور ان کی صفات میں سے کسی کی اضافت کردی جاتی ہے جو بالاتفاق اللہ کی صفت نہیں ہوتی۔ انسان جب کہتا ہے کہ: ’’فُلانٌ قَد فَرَّطَ في جَنْبِ فُلانٍ أو جانِبِهِ‘‘ تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ تفریط اس شخص کے نفس (ذات) میں واقع ہوئی ہے بلکہ اُس کی اِس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اس نے اس کے تئیں اور اس کے حق میں کوتاہی کی ہے۔ جب یہ لفظ مخلوق کی طرف مضاف ہو تو اس کا ظاہری معنی یہ نہیں ہوتا کہ تقصیر بذات خود انسان کے جنب (پہلو) میں ہوئی ہے جو اس کی پسلیوں سے ملا ہوا ہے؛ بلکہ یہ تفریط اس سے ملی ہوئی بھی نہیں ہوتی۔تو پھر یہ کیسے گمان کیا جا سکتا ہے کہ اللہ کے حق میں اس کا ظاہری معنی یہ ہے کہ تفریط اس کی ذات میں ہوئی ہے۔
جَنْب: انسان کا پہلو، جو بغل کے نیچے سے لے کر کمربند سے تھوڑا اوپر تک پیٹ کی جانب کا حصہ ہے۔ کہا جاتا ہے ’’قَعَدْتُ إِلى جَنْبِ فُلانٍ وجانِبِهِ‘‘ یعنی میں فلاں کے پہلو یا اس کی ایک طرف بیٹھا۔ کسی شے کے ’جنب‘ سے مراد اس کا ناحیہ اور کنارہ ہے۔ ’جنب‘ کا معنی قرب بھی آتا ہے۔