الرحيم
كلمة (الرحيم) في اللغة صيغة مبالغة من الرحمة على وزن (فعيل) وهي...
ایک لقب جس کا اطلاق اہلِ بدعت اہلِ سنت و جماعت پر کرتے ہیں کہ وہ مجسمہ ہیں، اور یہ کہ انھیں کوئی سمجھ بوجھ اور معرفت نہیں ہے۔
" حَشوِيَّہ " ایک ایسا لفظ ہے جس کا شریعت، لغت اور عرف عام میں کوئی مدلول نہیں ہے۔ یہ محض ایک اصطلاح ہے جس کے ذریعے گمراہ فرقے أهلِ سنت وجماعت پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ اس لفظ سے ان کی مراد یہ ہے کہ اہلِ سنت گھٹیا ترین اور گرے پڑے لوگ ہیں اور دین کے بارے میں وہ جو کچھ کہتے ہیں اس کا کوئی اعتبار نہیں؛ کیوں کہ وہ ان کے خیال میں گمراہ ہیں اور اسی وجہ سے وہ لوگوں کو ان سے متنفر کرتے ہیں۔ معتزلہ ان لوگوں کو حشوی کا نام دیتے ہیں جو تقدیر کو ثابت مانتے ہیں۔ جب کہ ’جہمیہ‘ صفات کا اثبات کرنے والوں کو حشویہ قرار دیتے ہیں۔ اور اسی طرح... ایک قول کی رو سے ’مُعَطلہ‘ اپنے قول " حشوية " سے یہ مراد لیتے ہیں کہ صفات کا اثبات کرنے والوں کا وجود حشو (بے کار) ہے اور یہ فضول لوگ ہیں۔ ان میں سے جو جاہل ہیں وہ حشو کا معنی یہ سمجھتے ہیں کہ صفات کا اثبات کرنے والے جب کہتے ہیں کہ: ’’إنَّ اللهَ سبحانه في السّماءِ وفَوقَ خَلْقِهِ‘‘ تو اپنے اس قول کے ذریعے وہ بندوں کے رب کو کائنات سے بھر دیتے ہیں۔
’حَشوِیّہ‘: یہ لفظ حشو سے ماخوذ ہے۔ اس سے مراد وہ شے (بھراؤ) ہے جس کے ذریعہ بستر وغیرہ کو بھرا جاتا ہے جیسے روئی وغیرہ۔ اس کا اطلاق لوگوں میں سے اس شخص پر ہوتا ہے جس پر بھروسہ نہیں کیا جاتا ہے (ناقابلِ بھروسہ لوگ)۔ کہا جاتاہے: ”فُلانٌ مِن حَشْوَةِ بَنِي فُلانٍ“ کہ فلاں شخص فلاں قبیلہ کے گھٹیا لوگوں میں سے ہے۔ الحَشْوُ مِن الكلام: یعنی فضول بات جس پر اعتماد نہ کیا جائے۔