العظيم
كلمة (عظيم) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعيل) وتعني اتصاف الشيء...
وہ نیک بندہ جس کا قصہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ کہف میں موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بیان کیا ہے۔
خَضِر: یہ اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ ہیں۔ قرآن کریم میں موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ان کا مختصر ذکر آیا ہے اور احادیث نبوی میں ان کے بعض احوال کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ خضر کو یہ نام کیوں دیا گیا اس سلسلے میں دو اقوال ہیں: 1۔ وہ بغیر روئیدگی والی زمین (فرْوہ) پر بیٹھے تو اس میں سے شادابی نمودار ہوگئی۔ ’فروہ‘ کا معنی ہے خشک زمین اور ایک قول کے مطابق سطح زمین کو ’فروہ‘ کہا جاتا ہے۔ 2۔ وہ جب بیٹھا کرتے تھے تو ان کا اردگرد سرسبز ہو جاتا تھا۔ ان کی نبوت کے بارے میں اہل علم کے مختلف اقوال ہیں جن میں سے مشہور یہ دو ہیں: پہلا قول: وہ نبی ہیں۔ علما کی اکثریت بشمول قرطبی، ابن کثیر، ابن حجر اور محمد امین شنقیطی وغیرہ کا قول یہی ہے۔ تاہم اس کے قائلین کا اس بات میں اختلاف ہے کہ وہ صاحبِ رسالت نبی تھے یا صرف نبی تھے۔ ان کی اکثریت کا قول یہی ہے کہ وہ بغیر رسالت کے صرف نبی تھے۔ دوسرا قول: وہ ولی ہیں نبی نہیں ہیں۔ یہ کچھ اہلِ علم کا قول ہے۔ جہاں تک ان کی زندگی کے بارے میں اختلاف کی بات ہے تو اس بارے میں محققین اہل علم جیسے امام بخاری، امام احمد، ابن الجوزی، ابن تیمیہ اور ابن حجر وغیرہ کا کہنا ہے کہ وہ وفات پاچکے ہیں۔ یہ قول بعض صوفیہ اور ان سے اتفاقِ رائے رکھنے والوں کے برخلاف ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ خضر ابھی تک زندہ ہیں۔