الحكيم
اسمُ (الحكيم) اسمٌ جليل من أسماء الله الحسنى، وكلمةُ (الحكيم) في...
ربوبیت کی خصوصیات جیسے تخلیق، رزق رسانی اور کارسازی وغیرہ میں غیر اللہ کو اللہ تعالی کا ہم سر بنانا یا اِن میں سے کسی شے کی غیر اللہ کی طرف نسبت کرنا۔
’توحیدِ ربوبیت میں شرک‘ یہ ہے کہ انسان غیرُ اللہ کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ تدبیر ساز بنا بیٹھے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو اس کی بادشاہت اور تدبیرسازی میں یکتا ویگانہ نہ سمجھے، اور یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ کے بھی مُعِین و مددگار، وزیر اور اس قسم کے دوسرے مساعد ہوتے ہیں۔ ’ربوبیت‘ میں شرک کرنے والے گنے چنے گروہ ہی رہے ہیں۔ اس شرک کی دو انواع ہیں: 1- پہلی نوع: شرکِ تعطیل؛ یہ شرک کی بدترین شکل ہے۔ جیسے فرعون کا شرک، جس نے برجستہ کہا تھا ”وَمَا رَبُّ العالَمِين“ (سورة الشعراء: آية 23) کہ ربُّ العالمین کیا چیز ہے؟ لہذا وہ صانع (کائنات کی تخلیق کرنے والے) کا سب سے مشہور منکر ہے۔ تاہم اُسے اندر سے یقین تھا کہ موسی علیہ السلام اللہ تعالی کی ربوبیتِ کی دعوت میں اُس سے کہیں زیادہ سچے ہیں۔ اسی طرح کائنات کی تخلیق کے پیچھے ایکسپلوزن تھیوری (ایک دھماکے سے اس کے وجود پذیر ہونے) کے قائلین، نیچری اور دہریہ لوگ بھی اسی طرح کی شرک در ربوبیت کے شکار ہیں، جن کا یہ کہنا ہے ”مَا هِيَ إِلاَّ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلاَّ الدَّهْر“ (سورة الجاثية: آية:24) ترجمہ: ہماری زندگی تو صرف دنیوی زندگی ہے، ہم یہاں مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں دہر (زمانہ) ہی ہلاک کرتا ہے۔ (کوئی رب نہیں)۔ ہمارے دور میں کمیونسٹ اور مادہ پرست ملحدین اور اسی طرح وہ فلسفی بھی اس زمرے میں آتے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ عالَم قدیم اور ابد سے قائم ہے۔ نیز عقلِ فعّال ہی خالق اور اپنے تحت آنے والی سب چیزوں کا تدبیر ساز ہے۔ 2- دوسری نوع: یہ شرک ایک سے زائد کائنات ساز میں یقین رکھنے کی وجہ سے ہوتا ہے؛ جیسے مجوس میں سے ثنویہ لوگ جو دنیا کے دو خالق ہونے کے قائل ہیں؛ ایک نور کا الہ (معبود) جو خیر کا خالق ہے اور دوسرا ظلمت کا الہ (معبود) جو بُرائی کا خالق ہے۔ اسی طرح ان نصرانیوں کا شرک جو باپ، بیٹے اور روحُ القدس کے رب ہونے (عقیدۂ تثلیث) کے قائل ہیں۔ اسی نوعیت کے شرک سے ان غالی قبرپرستوں کے شرک کو بھی ملایا جائے گا، جن کا یہ گمان ہے کہ اولیاء کی روحیں اپنی زندگی میں اور مرنے کے بعد کائنات میں تصرف کرتی ہیں؛ چنانچہ وہ حاجت روائی کرتی، مصائب کو دور کرتی اور ان کو پکارنے والے کی مدد کرتی ہیں، اُن سے فریاد کرنے والوں اور اُن کی پناہ میں آنے والوں کی حفاظت کرتی ہیں۔ اس لیے کہ یہ سب ربوبیت کی خصوصیات ہیں۔
رمضانُ شهرُ الانتصاراتِ الإسلاميةِ العظيمةِ، والفتوحاتِ الخالدةِ في قديمِ التاريخِ وحديثِهِ.
ومنْ أعظمِ تلكَ الفتوحاتِ: فتحُ مكةَ، وكان في العشرينَ من شهرِ رمضانَ في العامِ الثامنِ منَ الهجرةِ المُشَرّفةِ.
فِي هذهِ الغزوةِ دخلَ رسولُ اللهِ صلّى اللهُ عليهِ وسلمَ مكةَ في جيشٍ قِوامُه عشرةُ آلافِ مقاتلٍ، على إثْرِ نقضِ قريشٍ للعهدِ الذي أُبرمَ بينها وبينَهُ في صُلحِ الحُدَيْبِيَةِ، وبعدَ دخولِهِ مكةَ أخذَ صلىَ اللهُ عليهِ وسلمَ يطوفُ بالكعبةِ المُشرفةِ، ويَطعنُ الأصنامَ التي كانتْ حولَها بقَوسٍ في يدِهِ، وهوَ يُرددُ: «جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا» (81)الإسراء، وأمرَ بتلكَ الأصنامِ فكُسِرَتْ، ولما رأى الرسولُ صناديدَ قريشٍ وقدْ طأطأوا رؤوسَهمْ ذُلاً وانكساراً سألهُم " ما تظنونَ أني فاعلٌ بكُم؟" قالوا: "خيراً، أخٌ كريمٌ وابنُ أخٍ كريمٍ"، فأعلنَ جوهرَ الرسالةِ المحمديةِ، رسالةِ الرأفةِ والرحمةِ، والعفوِ عندَ المَقدُرَةِ، بقولِه:" اليومَ أقولُ لكمْ ما قالَ أخِي يوسفُ من قبلُ: "لا تثريبَ عليكمْ اليومَ يغفرُ اللهُ لكمْ، وهو أرحمُ الراحمينْ، اذهبوا فأنتمُ الطُلَقَاءُ".