کلامِ نفسی (كلام نفسي)

کلامِ نفسی (كلام نفسي)


العقيدة

المعنى الاصطلاحي :


ایسا معنی جو متکلم سبحانہ وتعالیٰ کی نفس کے ساتھ قائم ہو، جس میں کوئی حرف اور آواز نہ ہو، نیز اس کا تعلق اس کی مشیت وقدرت سے بھی نہ ہو۔

الشرح المختصر :


’کلامِ نفسی‘ اشاعرہ کے ہاں ایک ایسے نفسی معنی سے عبارت ہے، جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔ یہ ذاتِ الہیہ کی قدامت کی طرح اُس کی ایک ازلی و قدیم صفت ہے، اور یہ کہ وہ ایک ہے، اُس کو اجزا میں بانٹا نہیں جاسکتا، نہ ہی اُس کی کوئی تبعیض کی جاسکتی ہے، اس میں کوئی امر و نہی، خبر، خبر کی جستجو جیسے توریت، انجیل اور قرآن نہیں، وہ کلام حروف اور آوازوں سے بھی یکسر خالی ہے، نیز اس کا تعلق اللہ سبحانہ کی مشیت اور قدرت سے بھی نہیں۔ اور یہ کہ الفاظ اسی سے تشکیل پاتے ہیں، اور حقیقت میں وہ سُنتا بھی نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے کلام کے سلسلے میں اہلِ سنت وجماعت کے موقف کے بر خلاف ہے؛ اس لیے کہ اُن کا یہ عقیدہ ہے کہ ’کلامِ الہی‘ اللہ سبحانہ کی جلالتِ شان کے شایانِ شان اس کی ایک ثابت شدہ صفت ہے، وہ قابلِ سماعت حروف و اصوات سے عبارت ہے، وہ کلام کی نوعیت کے اعتبار سے اُس کی ایک ذاتی صفت ہے، اور اَفرادِ کلام اور اس کے اللہ عزّ وجلّ کی مشیت سے متعلق ہونے کے اعتبار سے فعلی صفت ہے، پس اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنی مرضی سے جب اور جیسے چاہتا ہے ہمیشہ سے کلام کرتا رہا ہے، اس کا کلام بہترین کلام ہے، مخلوق کے کلام سے بالکل مشابہ نہیں، وہ حقیقی طور پر اپنا کلام مخلوق جیسے فرشتوں اور رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے سُناتا ہے، اور اپنے عام (جنتی) بندوں کو بھی آخرت میں اُسے خود اپنی آواز میں سنائے گا، جیساکہ اس نے موسی علیہ السلام سے کلام کیا اور اُنھیں اپنی آواز سے اُس وقت پکارا جب وہ درخت کے پاس آئے تھے، جس کو موسی علیہ السلام نے سُنا تھا، اور اُسی کے کلام سے قرآن ، توریت اور انجیل بھی عبارت ہے۔