جھنڈا (لِواء)

جھنڈا (لِواء)


العقيدة

المعنى الاصطلاحي :


وہ جھنڈا جسے روزِ قیامت خاص طور پر صرف نبیﷺ اٹھائے ہوئے ہوں گے، تاکہ یہ آپ کی نشانی ہو اور اس سے آپ کا پتہ چل سکے۔ تمام لوگ یعنی آدم علیہ السلام اور ان کے علاوہ دیگر لوگ آپ کے تابع اور آپ کے جھنڈے تلے ہوں گے۔

الشرح المختصر :


اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کو بہت سی خصوصیات اور فضائل عنایت فرمائے ہیں جن سے آپ ﷺ کے اپنے رب کے ہاں اونچے درجے اور دنیا و آخرت میں آپ ﷺ کی بلند حیثیت کا پتہ چلتا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ: آپ ﷺ کو 'لوائے حمد' ( تعریف و ستائش کا جھنڈا) عطا ہوگا۔ یہ ایک حقیقی جھنڈا ہوگا جسے قیامت کے دن صرف آپﷺ تھامے ہوئے ہوں گے۔ کیونکہ نبی ﷺ نے جن باتوں کی خبر دی ہے ان کے بارے میں اصل اور بنیادی بات یہ ہے کہ وہ حقیقت پر مبنی ہوتی ہے وہ مجاز نھیں ہوتی۔ آدم علیہ السلام اور دوسرے تمام لوگ آپ ﷺ کے پیچھے اور آپ ﷺ کے جھنڈے تلے ہوں گے۔ یہ جھنڈا خاص طور آپﷺ کو اس لیے عنایت ہوگا کیونکہ آپﷺ اللہ تعالی کی ایسی خوبیاں بیان کرکے حمد کریں گے جن کے ساتھ کسی اور نے حمد نہیں کی ہوگی۔ ’لِواء‘ کے معنی کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ: اس سے مراد معنوی جھنڈا ہے یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ رسولﷺ تمام رسولوں اور تمام امتوں کے قائد ہوں گے۔ چنانچہ 'لواء' یہاں شہرت کا معنی دے رہا ہے اور یہ کہ اس دن صرف آپﷺ کو یہ اعزاز حاصل ہوگا کہ آپ ﷺ تمام لوگوں کے سامنے اللہ کی حمد بیان کریں گے۔ کیونکہ عربوں کے نزدیک جھنڈا ہوتا ہی شہرت کے لیے ہے اور اس کے بنائے جانے کا حقیقی مقصد ہی یہی ہے۔ اس کے مظاہر میں سے یہ بھی ہے کہ: (آپﷺ کو) شفاعتِ عُظمی حاصل ہوگی اور آپﷺ کی امت جنت میں سب سے پہلے داخل ہوگی۔ لیکن درست بات یہ ہے کہ یہ ایک حقیقی جھنڈا ہوگا جسے روزِ قیامت صرف آپﷺ تھامے ہوئے ہوں گے کیونکہ نبی ﷺ کی بتائی ہوئی باتوں میں اصل یہی ہے کہ یہ حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں نہ کہ مجاز پر۔

التعريف اللغوي المختصر :


’اللِّواءُ‘ (لام کے زیر اور مدّہ کے ساتھ): جھنڈا۔ ایک قول کی رو سے اس کا معنی ہے ’لشکر کا علم جو جنگ میں اٹھایا جاتا ہے‘۔ اسے یہ نام اس لیے دیا گیا کیونکہ بڑا ہونے کی وجہ سے اسے لپیٹ کر رکھا جاتا ہے اور صرف بوقت ضرورت ہی اسے کھولا جاتا ہے۔ ایک قول کے مطابق یہ 'الراية' سے چھوٹا ہوتا ہے۔