الأكرم
اسمُ (الأكرم) على وزن (أفعل)، مِن الكَرَم، وهو اسمٌ من أسماء الله...
ہر وہ شے جس کا عقلی طور پر خارج میں وجود متصور نہ ہو۔
مستحیل: اس سے مراد وہ شے ہے جس کا خارج میں وجود ممکن نہ ہو۔ اس کی دو قسمیں ہیں: مستحیل لذاتہ: جس کا وجود ممکن نہ ہو اور نہ ہی اس کے ساتھ قدرت متعلق ہو، جیسے یہ بات محال ہے کہ اللہ اپنا مثل پیدا کرے کیونکہ مماثلت محال ہے۔ اس سلسلے میں کم ترین بات جو کہی جائے گی وہ یہ ہے کہ: یہ مخلوق ہے اور رب خالق ہے، اس طرح کسی بھی صورت میں مماثلت باقی نہیں رہتی۔ مستحیل لغیرہ: جس کا از روئے عادت وقوع نھیں ہوتا، اگرچہ عقلی طور پر اس کا تصور ممکن ہو۔ لھٰذا اس کے ساتھ قدرت متعلق ہوتی ہے؛ کیونکہ قدرت کی رو سے اس کا واقع ہونا ممکن ہے۔ انبیائے کرام کی تمام تکوینی آیات (معجزات) اسی قبیل سے ہیں، جیسے رسول ﷺ کے لیے چاند کا پھٹ جانا۔ قرآن پاک میں ’مستحیل‘ کا لفظ نہیں آیا، البتہ اس کا فعل ’حَالَ‘ اور اس کی بعض صیغے آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جن صفات سے متصف ہے ان کی متضاد صفات کا اللہ میں ہونا محال ہے۔ چنانچہ جہالت جو علم کی ضد ہے اللہ کے حق میں محال ہے۔ اسی طرح عجز جو قدرت کی ضد ہے اور موت جو زندگی کی ضد ہے، یہ سب اللہ کے حق میں محال ہیں۔
مستحیل: ’ناممکن‘ اور ’محال‘۔ کہا جاتا ہے: ’’اسْتَحالَ الشَّيْ‘‘ یعنی وہ شے محال ہوگئی۔ اس سے مراد وہ بات ہے جس میں دو تضادات جمع ہوجائیں، جیسے کہا جائے کہ: ’’ایک ہی جسم دو مختلف جگہوں پر ایک ہی حالت میں موجود ہے۔‘‘ یہ ’باطل‘ کے معنی میں بھی آتا ہے۔