اِفتاء، فتویٰ دینا (الإِفْتَاء)

اِفتاء، فتویٰ دینا (الإِفْتَاء)


أصول الفقه الفقه

المعنى الاصطلاحي :


کسی پوچھنے والے کو پابند کئے بغیر کوئی شرعی حکم بتانا۔

الشرح المختصر :


افتاء: دلیل کی بنیاد پر پابند کئے بغیر کسی مخصوص واقعے میں سائل (پوچھنے والے) کو حکمِ شرعی بتانا۔ 'افتاء' اور 'قضاء' (عدالتی فیصلہ) میں فرق یہ ہے کہ فتوی الزامی نہیں ہوتا جب کہ عدالتی فیصلہ الزامی ہوتا ہے۔ چنانچہ مفتی ایک عام اور کُلی حکم کا فتوی دیتا ہے کہ جس نے ایسے کیا اس کا حکم یہ ہوگا اور جس نے ایسے کہا اس پر یہ لازم آئے گا۔ جب کہ قاضی کسی معین شخص پر ایک معین فیصلہ دیتا ہے اور اس کا فیصلہ خاص اور الزامی ہوتا ہے جب کہ عالم کا فتوی عام اورغیر الزامی ہوتا ہے۔ ان دونوں کا اجر بہت زیادہ ہے اور دونوں کی بہت اہمیت ہے۔ نصوص کی رو سے اللہ کے دین میں علم کے بغیر یا ایسی رائے کی بنیا پر فتوی دینا حرام ہے جو نصوص کی مخالف ہو یا جس رائے کو نصوص قبول نہ کرتی ہوں۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ. یعنی اور (شیطان) اللہ تعالیٰ پر ان باتوں کے کہنے کا حکم دیتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں۔ (سورۂ بقرة: 169) کیوں کہ ایسا کرنا دراصل اللہ کے اسماء و صفات اور اس کی شریعت و دین کے معاملے میں اس پر جھوٹ باندھنا ہے۔

التعريف اللغوي المختصر :


’اِفْتاء‘: سوال کا جواب دینا۔ جب آپ کسی کو اس کے سوال کا جواب دے دیں تو کہا جاتا ہے ’’أَفْتَيْتُهُ، فَتْوَى، وَفُتْيا‘‘ کہ میں نے اُس کو فتوی دیا۔ اس کا معنی مشکل بات کی وضاحت کرنا بھی آتا ہے۔ کہا جاتا ہے ’’أَفْتاهُ في الأَمْرِ‘‘ یعنی اس نے اس معاملے کو اس کے لئے واضح کیا۔