اہل سنت و الجماعت (أَهْلُ السُّنَّةِ وَالجَمَاعَةِ)

اہل سنت و الجماعت (أَهْلُ السُّنَّةِ وَالجَمَاعَةِ)


العقيدة

المعنى الاصطلاحي :


اعتقادی اور عملی طور پر نبی ﷺ کی سنت کی اتباع کرنے والے اور مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑنے والے ۔(الموسوعة الميسرة في الأديان و المذاهب و الأحزاب المعاصرة، 36/1)۔ اہلِ سنت و الجماعت کا عقیدہ: تعریف: اہلِ سنت و الجماعت وہ فرقہ ناجیہ اور طائفہ منصورہ ہے جن کے بارے میں نبی ﷺ نے بتلایا ہے کہ وہ آپ ﷺ اور آپ کے صحابہ کی راہ پر بغیر کسی کجی کے گامزن رہیں گے۔ چنانچہ وہ کتاب و سنت کی پیروی کرنے والے، گمراہ لوگوں کے راستوں سے دور رہنے والے اہلِ اسلام ہیں۔ جیسا کہ نبیﷺ نے فرمایا: "بنی اسرائیل اکہتر (71) فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت تہتر (73) فرقوں میں بٹ جائے گی اور ان میں سوائے ایک کے باقی سب دوزخی ہوں گے"۔ آپ ﷺ سے دریافت کیا گیا: "وہ ایک فرقہ کون سا ہو گا؟"۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "یہ وہ لوگ ہوں گے جو ان باتوں پر کاربند ہوں گے جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں"۔ (یہ ایک حسن حدیث ہے جسے امام ترمذی اور دیگر محدثین نے روایت کیا ہے)۔ انہیں اہل سنت کا نام دیا گیا کیونکہ یہ نبیﷺ کی سنت پر کاربند رہتے ہیں اور اس کی اتباع کرتے ہیں اور "جماعت" کے نام کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ حدیث کی کچھ روایات میں نبیﷺ نے فرمایا: "وہ لوگ جماعت ہیں"۔ اور اس لیے کہ وہ لوگ اسلام کی جماعت ہیں جو حق پر مجمتع ہوئے اور دین کے معاملے میں باہم افتراق کا شکار نہ ہوئے اور ائمہ حق کے منہج کے پیروی کی اور عقائد سے متعلق کسی بھی امر میں اس سے خروج نھیں کیا۔ یہی لوگ "اہل اثر"، یا "اہل حدیث"، یا "طائفہ منصورہ" یا "فرقہ ناجیہ" ہیں۔ اہلِ سنت و الجماعت کے عقیدے کے اصول: اہل سنت و الجماعت کے اصول اسلام کے پیش کردہ اصول ہیں جو ایک ایسا عقیدہ ہے جس میں نہ تو فرقے ہیں اور نہ متعدد راہیں۔ اس لیے اہل سنت و الجماعت کے قواعد و اصول تلقی اور استدلال کے میدان میں درج ذیل ہیں: 1۔ عقیدہ کا مصدر اللہ کی کتاب، اس کے رسولﷺ کی سنت اور سلف صالحین کا اجماع ہے۔ 2۔ قرآن کریم میں آنے والی ہر بات مسلمانوں کی شریعت ہے اور نبی ﷺکی ہر صحیح حدیث کو قبول کرنا واجب ہے اگرچہ وہ خبر واحد ہی ہو۔ 3۔ کتاب و سنت کو سمجھنےکے لئے مرجع ان کی وضاحت کرنے والی نصوص اور سلف صالحین اور ان کے منہج پر کاربند افراد کا فہم ہے۔ 4۔ نبیﷺ نے تمام اصول دین کو وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا اس لئے کسی شخص کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی آڑ میں دین میں کوئی نئی بات ایجاد کرے یہ دعوی کرتے ہوئے کہ وہ دین کا حصہ ہے۔ 5۔ ظاہری و باطنی طور پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے سامنے سرِتسلیم خم کر دینا۔ چنانچہ قیاس، ذاتی ذوق یا نام نہاد کشف اور کسی خیالی شیخ یا امام وغیرہ کے قول کی بنا پر قرآن کریم یا صحیح سنت کی مخالفت نہیں کی جائے گی۔ 6۔ عقل صریح پورے طور پر نقلِ صحیح کے موافق ہوتی ہے اور ان دونوں کے درمیان قطعاً کوئی تعارض نہیں ہوتا۔ اور جب تعارض کا گمان ہو تو نقل کو عقل پر ترجیح دی جائے گی۔ (الموسوعة الميسرة في الأديان و المذاهب و الأحزاب المعاصرة: 37/1) ۔ 7۔ عقائد کے معاملہ میں شرعی الفاظ پر کاربند رہا جائے گا اور خود ساختہ نئے الفاظ سے اجتناب کیا جائےگا۔ 8۔ اللہ کے رسولﷺ معصوم ہیں اور امت بھی اپنی مجموعی حیثیت سے اس بات سے معصوم ہے کہ وہ گمراہی پر اکٹھی ہو جائے۔ تاہم افرادِ امت میں سے کوئی بھی فرد معصوم نہیں اور بصورتِ اختلاف کتاب وسنت مرجع ہوں گے اور مجتہدین امت میں سے جس سے خطا ہو جائے اسے معذور سمجھا جائے گا۔ 9۔ اچھے خواب حق ہیں اور یہ نبوت کا ایک حصہ ہیں اور سچی فراست بھی حق ہے۔ اور یہ کرامات اور خوش خبری دینے والی چیزیں ہیں بشرطیکہ وہ شریعت کے موافق ہوں۔ تاہم یہ عقیدہ اور شرعی قوانین کا مصدر (ماخذ) نہیں ہیں۔ 10۔ دین میں کٹ حجتی ایک مذموم شے ہے اور اچھے انداز میں بحث و مباحثہ کرنا مشروع ہے اور جن امور میں گفتگو سے منع کیا گیا ہے ان میں گفتگو کرنا جائز نہیں ہے۔ 11۔ کسی بات کو رد کرنے میں وحی کے منہج کو اپنانا واجب ہے۔ چنانچہ بدعت کو بدعت کےساتھ رد نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی غلو کا مقابلہ تفریط سے یا تفریط کا مقابلہ غلو سے کیا جائے گا۔ 12۔ دین میں ایجاد کردہ ہر نئی بات بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی دوزخ میں لے جانے کا سبب ہے۔ علمی و اعتقادی توحید: • اللہ کے اسماء و صفات کے بارے میں بنیادی اصول یہ ہے کہ بنا کسی تمثیل و تکییف کے ہر اس چیز کو ثابت مانا جائےجسے اللہ نے خود اپنے لیے ثابت کیا ہے یا اس کے رسولﷺ نے اس کے لئے ثابت کیا ہے؛ اور بنا کسی تحریف و تعطیل کے ہر اس چہز کی اللہ کی ذات سے نفی کی جائے جس کی اللہ نے اپنے آپ سے نفی کی ہے یا اس کے رسولﷺ نے اس کی ذات سے نفی کی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: [ليس كمِثْلِه شيءٌ وهو السميع البصير] (الشوری: 11) ترجمہ: اس کے مانند کوئی شے نہیں ہے اور وہ بہت سننے اور بہت دیکھنے والا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ نصوص کے الفاظ کے معانی اور ان کے مفہوم پر بھی ایمان رکھا جائے۔ • فرشتوں پر اجمالی ایمان لانا اور ان کے جو اسماء و صفات اور اعمال دلیل سے ثابت ہیں ان پر مکلف کے علم کے بقدر تفصیلی ایمان لانا۔ • تمام نازل شدہ آسمانی کتابوں پر ایمان لانا اور اس بات پر ایمان لانا کہ قرآن ان سب میں افضل اور ان سب کو منسوخ کرنے والا ہے اور یہ کہ قرآن سے پہلے آسمانی کتابوں میں تحریف واقع ہوئی اس لئے صرف قرآن ہی کی اتباع واجب ہے اور اس سے پہلے کی کتابوں کی نہیں۔ • اللہ کے انبیاء اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا۔ صلوات الله و سلامه عليهم ۔اور اس بات پر ایمان لانا کہ انبیاء علیہم السلام باقی سب انسانوں سے افضل ہیں اور جو اس کے برخلاف عقیدہ رکھتا ہے وہ کفر کا مرتکب ہوتا ہے۔ • محمد ﷺ کے بعد وحی کے منطقع ہو جانے پر ایمان لانا اور اس بات پر ایمان رکھنا کہ آپﷺ خاتم الانبیاء و المرسلین ہیں۔ جو اس کے برخلاف عقیدہ رکھتا ہے وہ کافر ہوجاتا ہے۔ • یومِ آخرت اور اس کے بارے میں صحیح احادیث کے اندر آنے والی خبروں، اور قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی اس کی علامات اور نشانیوں پر ایمان لانا۔ • اس بات پر ایمان لانا کہ اچھی اور بری تقدیر اللہ کی طرف سے ہے اور اس بات پر ایمان رکھنا کہ جو کچھ ہونے والا ہے قبل اس کے کہ وہ وقوع پذیر ہو اللہ کو اس کا علم تھا اور یہ اس نے لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے، اور یہ کہ جو کچھ ہوتا ہے اللہ تعالی کی مشیت سے ہوتا ہے، اور جو اللہ کی مشیت میں نہیں وہ نہیں ہوتا ہے، پس جو اللہ چاہے وہی ہوتا ہے، اور اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے، وہی تمام اشیاء کا خالق ہے اور وہ جو چاہتا ہے کر گزرنے والا ہے۔

الشرح المختصر :


أهلُ السُّنَّةِ والجَماعَةِ: یہ وہ لوگ ہیں جو کتاب و سنت پر کاربند رہے، ان کو سمجھنے میں انہوں نے سلف صالحین کے منہج کو اپنایا، اجماع امت کی پاسداری کی، اجتماعیت پر قائم اور افتراق و اختلاف دور کرنےپر حریص رہے۔ اس صفت کا دارومدار نبی ﷺ کی سنت کی اتباع اور آپ ﷺ جس عقیدے، ہدایت اور طرز سلوک کو لائے اس کی پابندی اور مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہنے میں ہے۔ (مدخل لدراسة العقيدة الإسلامية، ص: 148) اہلِ سنت و الجماعت کی وجہ تسمیہ: اہلِ سنت و الجماعت کو یہ نام اس لئے دیا گیا کیونکہ وہ نبیﷺ کی سنت پر کاربند رہتے ہیں، اس پر عمل کرتے ہیں اور آپ ﷺ جو کچھ لے کر آئے اس کی اتباع کرتے ہیں اور اس لیے کہ وہ حق پر اوراس بات پر قائم رہتے ہیں جس پر مسلمانوں کی جماعت ہو، چنانچہ دینی معاملات میں افتراق کا شکار نہیں ہوتے۔ اس طرح سے یہ جادۂ حق یعنی صراط مستقیم پر رہتے ہیں جو کہ خالص دینِ اسلام ہے۔ اس سے مراد وہ سب کچھ ہے جو اللہ تعالی کی کتاب اور اس کے رسولﷺ کی سنت میں آیا ہے۔ چنانچہ یہی سنت و جماعت ہے۔ کیوں کہ صرف سنت ہی خالص دینِ اسلام ہے۔ (دیکھیں: الوصية الكبرى، ابن تيميہ، ص: 45، مفهوم أهل السنة و الجامعة: ڈاکٹر ناصر العقل، ص: 77، 78، صفة الغرباء، سليمان العودة، ص: 125-127، الفرق بين الفِرَق، البغدادی، ص: 318-361، التبصير في الدين، اسفرائینی، ص: 185-187، مدخل لدراسة العقيدة الإسلامية، ص: 156)۔ اہلِ سنت و الجماعت کا تعلق کسی معین گروہ، جماعت یا کسی خاص علاقے یا زمانے کے ساتھ نہیں ہے۔ کیونکہ ہر وہ شخص جو اہل سنت کی صفات و خصوصیات سے متصف اور ان کے منہج پر کاربند ہو وہ اہل سنت و الجماعت میں شامل ہے۔ اس طرح سے اہل سنت و الجماعت کا مفہوم سلف صالحین کے مفہوم سے ملتا ہے جس کا ذکر آگے آئے گا۔ اہلِ سنت و الجماعت کی میانہ روی: گزشتہ سطور میں ہم نےاس بات کی طرف اشارہ کیا کہ سنت و جماعت کو لازم پکڑنا واجب ہے۔ ہم اس کے مفہوم سے روشناس ہوئے اور یہ جانا کہ فرقہ ناجیہ کو اہل سنت و الجماعت کا نام کیوں دیا گیا۔ چنانچہ دوبارہ سے ان باتوں کا ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے ہم صرف اس بات کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ سنت و جماعت کا التزام کرنا اور ان پر کاربند رہنا فرقہ ناجیہ کی سب سے بڑی اور اہم ترین علامتوں میں سے ہے۔ اس کے بعد آنے والی دوسری علامت جس کا ہم اس پیراگراف میں ذکر کریں گے وہ دیگر فرقوں کے مقابلے میں ان کی وسطیت (میانہ روی) ہے۔ وسطیت (میانہ روی) سے مراد اعتدال اور دو ایسے امور یا اطراف کے مابین توازن ہے جن میں افراط و تفریط یا مبالغہ و تقصیر پایا جائے۔ چنانچہ یہ وسطیت عین انصاف اور درمیانی راہ ہے اور اسی میں فضیلت پنہاں ہے۔ اہل سنت و الجماعت میانہ روی اور اعتدال کی امتیازی خصوصیت کے حامل ہیں جب کہ دیگر گروہ تضاد کے دونوں کناروں (سروں) پر کھڑے ہوتے ہیں، چنانچہ ان میں سے ایک مثال کے طور پر بالکل دائیں جانب ہوتا ہے تو دوسرا بالکل بائیں جانب۔ اس میانہ روی کا اظہار عقیدے کے ابواب اور بالعموم اس کے مسائل میں ہوتا ہے۔ ہم ان میں سے چند ایسی مثالوں پر اکتفا کرتے ہیں جن میں باقی سب کی طرف اشارہ ہے: (تفصیل کے لئے دیکھیں: الوصية الكبرى، ص: 52-55، شرح العقيدة الواسطية للهراس، ص: 20-32، التنبيهات السنية على العقيدة الواسطية، ص: 191-204، شرح العقيدة الطحاوية، ص: 216 و مابعد، 567 و مابعد، مدخل لدراسة العقيدة الإسلامية، ص: 158) ا۔ اللہ کے اسماء حسنی اور عظیم صفات میں میانہ روی۔ اہل سنت و الجماعت ہر اس بات پر ایمان لاتے ہیں جس سے اللہ نے اپنی ذات کو اور اس کے رسولﷺ نے اسے موصوف کیا ہے اور ان تمام اسماء حسنی پر ایمان رکھتے ہیں جو حسن و کمال اور پاکیزگی کی انتہاء ہیں۔ اہل سنت و الجماعت ان سب کے معنی پر تحریف و نفی کئے بغیر اور بنا کسی تکییف و تمثیل کے ایمان لاتے ہیں بایں طور کہ نہ تو کسی صفت کی حقیقت کا تعین کرتے ہیں جس کا علم صرف اللہ کی ذات کو ہے اور نہ ہی اسے مخلوق کی صفات کی مانند اور ان سے مشابہہ قرار دیتے ہیں۔ اس طرح سے اہل سنت و الجماعت تعطیل و نفی کرنے والے کے مابین ہیں جو اللہ کے اسماء اور آیات میں کج بیانی سے کام لیتے ہیں اور ان حقائق کی تعطیل کرتے ہیں جن سے اللہ نے اپنے آپ کو موصوف کیا ہے یہاں تک کہ یہ لوگ (نعوذ باللہ) اللہ کو معدوم اور بے جان شے سے تشبیہ دیتے ہیں۔ اور وہ (اہلِ سنت و جماعت) اہل تشبیہ و تمثیل کے درمیان راہِ اعتدال پر قائم ہیں جو اللہ کی مثالیں پیش کرتے ہیں اور اسے مخلوقات سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ب۔ خلق و امر کے باب میں میانہ روی: اہلِ سنت و الجماعت ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی ہر شے پر قادر ہے۔ وہ اس بات پر قادر ہے کہ اپنے بندوں کو ہدایت سے نوازے اور ان کے دلوں کو پھیر دے اور وہ جو چاہتا ہے وہ ہو جاتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا اور وہ اشیاء و صفات اور حرکات کا خالق ہے۔ اہلِ سنت ایمان رکھتے ہیں کہ بندہ قدرت و مشیت رکھتا ہے اور وہ عمل کر سکتا ہے اور جو کچھ وہ کرتا ہے اس میں وہ بااختیار ہے۔ وہ اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ انسان مجبور محض ہے۔ کیونکہ مجبور تو وہ شخص ہوتا ہے جس سے اس کے ارادے کے برخلاف کام کروایا جائےجب کہ اللہ نے بندے کو اس کے ہر کام میں بااختیار بنایا ہے۔ چنانچہ بندہ اختیار وارادہ رکھتا ہے اور اللہ اس کا اور اس کے اختیار کا خالق ہے۔ اس طرح سے اہلِ سنت و الجماعت "قدریہ"جو اللہ کی قدرت کو جھٹلاتے ہیں اور اس کی قدرت کاملہ و مشیت شاملہ اور اس بات پر ایمان نہیں رکھتے کہ وہ ہر شے کا خالق ہے اور اللہ کے دین میں بگاڑ پیدا کرنے والے جبریہ کے درمیان راہِ اعتدال پر قائم ہیں جن کے نزدیک بندے کو نہ تو کوئی مشیت و قدرت حاصل ہے اور نہ ہی اس کا اپنا کوئی عمل ہے۔ یہ لوگ امر ونہی اور ثواب و عقاب کی تعطیل کرتے ہیں۔ اس طرح سے یہ ان مشرکین کی مانند ہیں جو یہ کہتے کہ: لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلا آبَاؤُنَا وَلا حَرَّمْنَا مِنْ شَيْءٍ (الانعام: 148) ترجمہ: "اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا، اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے"۔ ج: ایمان و دین کے اسما۶ اور اہل ایمان کے بارے میں جو احکام ہیں جیسے وعدہ و وعید ان میں میانہ روی: اس سلسلے میں اہلِ سنت و الجماعت ایک درمیانی موقف رکھتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے کبیرہ گناہوں کے مرتکب یا فاسق مسلمان ایمان کے کچھ حصے اور اصلِ ایمان کے حامل ہوتے ہیں تاہم ان کے پاس وہ کامل ضروری نہیں ہوتا جس سے وہ جنت کے حق دار ہوں اور یہ کہ ایسے لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں نہیں رہیں گے بلکہ جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو گا وہ اس سے نکل آئے گا اور یہ کہ نبی ﷺ نے اپنی شفاعت کو اپنی امت کے کبیرہ گناہوں کے مرتکبین کے لئے رکھ چھوڑا ہے۔ اس طرح سے اہلِ سنت و الجماعت وعدے اور وعید کے درمیان کا موقف رکھتے ہیں اور ان دونوں سے متعلق تمام آیات پر ایمان لاتے ہیں۔ چنانچہ اہلِ سنت "وعیدیہ" کے درمیان راہِ اعتدال پر قائم ہیں جو وعید وتخویف کی آیات کو غالب رکھتے ہوئے گناہِ کبیرہ کے مرتکب کے بارے میں فیصلہ صادر کرتے ہیں کہ وہ ایمان سے کامل طور پر خارج ہیں جیسا کہ خوارج کا عقیدہ ہے یا پھر یہ کہ وہ ایمان سے باہر ہیں۔