بدیہات (الْبَدَهِيَّات)

بدیہات (الْبَدَهِيَّات)


العقيدة أصول الفقه

المعنى الاصطلاحي :


بلا استدلال اور غور و فکر کے نفس میں ابتدائی طور پر حاصل ہونے والی معرفت۔

الشرح المختصر :


بدیہات: ان سے مراد وہ واضح امور ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے عقل و فطرت میں ودیعت کر رکھا ہے۔ جیسے اس بات کی معرفت کہ آگ گرم ہے، یا بالفاظ دیگر یوں کہا جائے کہ اس سے مراد افکار و مسائل کا اس طرح واضح ہونا ہے کہ وہ ذہن پر اپنے آپ کو تھوپ دیں، اور ان کے حصول کے لیے کسی غور وفکر اور محنت کی ضرورت نہ پیش آئے۔ چاہے وہ کسی دوسری شے مثلاً ’فراست ودانائی‘ یا ’تجربے‘ وغیرہ کے محتاج ہوں یا نہ ہوں۔ چنانچہ اس صورت میں ’بدیہات‘ ضروریات کے مترادف ہوں گی۔ تاہم بعض اوقات یہ ضروریات سے خاص ہوتی ہیں جیسے حرارت اور ٹھنڈک کا تصور۔ تاہم کسی مسئلے کا بدیہی یا نظری ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہر کسی کے لیے یکساں طور پر ایسے ہی ہوگا بلکہ یہ لوگوں کے حالات کے مطابق ایک نسبتی واضافی امر ہے۔ پس جو شخص ان باتوں کو بغیر کسی دلیل کے جان لے اس کے لیے یہ ’بدیہی‘ ہوں گی اور جو نظر واستدلال کا محتاج ہو اس کے لیے نظری ہوں گی۔ اور اسی طرح دیگر سارے امور ہیں۔

التعريف اللغوي المختصر :


البَدَهِيّاتُ: یہ ’بَدَهِي‘ کی جمع ہے۔ اس سے مراد وہ امر ہے جو بالکل واضح اور روشن ہو کہ جس کے ثبوت کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہ ہو۔ کہا جاتا ہے: ”بَدَهَهُ بأَمْرٍ“ یعنی اس نے اس کے ذریعہ آغاز کیا، اسی طرح اگر کسی اچانک پیش آنے والے معاملہ میں کوئی درست رائے رکھے تو اس کے بارے کہا جاتا ہے ’’فُلانٌ صاحِبُ بَدِيهةٍ‘‘ کہ فلاں فی البدیہ درست فیصلہ لینے والا شخص ہے۔