بیع، خرید وفروخت (الْبَيْعُ)

بیع، خرید وفروخت (الْبَيْعُ)


الفقه أصول الفقه

المعنى الاصطلاحي :


(کسی چیز کا) مالک بننے یا مالک بنانے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا۔

الشرح المختصر :


’بیع‘ ایک شرعی عقد ہے جس کے پابند دونوں فریق ہوتے ہیں۔ ’بائع‘ اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ شے کی ملکیت یا کسی مالی حق کو ’مشتری‘ کی طرف منتقل کردے اور ’مشتری‘ اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ ’بائع‘ کو ثمن کی ملکیت دے۔ ’بیع‘ کے تین ارکان ہیں یعنی’صیغہ‘ (ایجاب وقبول)، ’فریقین عقد‘ اور ’معقود علیہ‘۔ اور اس کی سات شرائط ہیں: 1- بائع اور مشتری کی رضامندی۔ 2- عقد کرنے والا ایسا ہو جس کا تصرف کرنا جائز ہو یعنی ان میں سے ہر ایک آزاد، مکلف اور سمجھدار ہو۔ 3- مبیع (فروخت کردہ چیز) ایسی ہو جس سے نفع اٹھانا مطلقاً مباح ہو۔ 4- مبیع، بائع کی ملکیت ہو یا پھر عقد کے وقت اسے اس کی بیع کرنے کی اجازت ہو۔ 5- مبیع، بائع اور مشتری دونوں كو معلوم ہو یا تو اسے دیکھ کر یا پھر اس کے اوصاف جان کر۔ 6- ثمن معلوم ہو۔ 7- مبیع ایسی چیز ہو جسے سپرد کرنے پر قدرت حاصل ہو۔

التعريف اللغوي المختصر :


بیع کا لغوی معنی ہے مال کے عوض کسی کو مال کا مالک بنانا۔ اس کا اطلاق ’خریدنے‘ پر بھی ہوتا ہے۔ اصل میں بیع کسی شے کو کسی دوسری شے کے مقابلے میں رکھنے کو کہتے ہیں۔ ’مُبَایَعَہ‘ اور ’بَیْعَۃٌ‘ کے الفاظ بھی اسی سے نکلے ہیں جن کا معنی ہے’’ایک دوسرے کے ساتھ عقد و معاہدہ کرنا‘‘۔ ایک قول کی رو سے ’بیع‘ دراصل ’بَاعٌ‘ سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے ’بازو‘۔ کیونکہ دونوں فریقین عقد اور لین دین کے لیے ایک دوسرے کی طرف بازو بڑھاتے ہیں۔