المتعالي
كلمة المتعالي في اللغة اسم فاعل من الفعل (تعالى)، واسم الله...
اللہ تعالیٰ کا اپنی مشیّت اور قدرت سے چیزوں کو ایجاد کرنے، ان کو بنانے، پیدا کرنے اور عدم سے وجود میں لانے میں اکیلا ہونا۔
" تاثِير" کا لفظ نہ ہی قرآن میں آیا اور نہ ہی آپ ﷺ کی سنت میں اس کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہ مجمل الفاظ اور مشترک اسماء میں سے ہے، چنانچہ اس سے پیدا کرنے میں انفرادیت اور ایجاد میں وحدانیت مراد لی جاتی ہے۔ " تاثِير" جب اللہ تعالیٰ کے لئے بولا جائے تو یہ اخبار کی قبیل سے ہوتا ہے یعنی اس بات کی خبر دینی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ چیزوں کو ایجاد کرنے والا، انہیں پیدا کرنے والا اور وجود بخشنے والا ہے۔ تاہم اس سے کوئی اسم یا صفت مشتق نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس کا کوئی صیغہ قرآن و حدیث میں وارد نہیں ہوا۔ رب کا مخلوق میں اثر کرنے کرنا باعتبار فعل، صناعت، ایجاد، اظہار، تخلیق، برات اور اسی طرح باعتبار اُن صفات کے ہے جو انبیاء کرام کی طرف سے تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچے یا بلکہ وہ تمام صفات جن پر جمہور عقلاء کا اتفاق ہے۔ اس معنیٰ کے اعتبار سے اس کا اطلاق بندے کی قدرت پر کرنا درست نہیں۔ معتزلہ کا کہنا ہے کہ بندہ اپنے افعال کا خالق خود ہے، یوں وہ بندے کی قدرت کے تاثیر کے قائل ہیں۔ حالاں کہ یہ باطل ہے۔ اسی کے باطل معنی نےفلاسفہ کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ عالم قدیم ہے۔ لہٰذا تاثیر کے یہ معانی باطل ہیں جن سے اس کی تفسیر کرنا جائز نہیں۔ تاثیر سے مُراد حادث اور مخلوق قوت کے ذریعے کسی فعل کا عدم سے وجود میں آنا بھی ہے بایں طور کہ قدرتِ مخلوقہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں اس قدرت کا سبب اور ذریعہ ہے۔ جیسے اس نے غلّہ اُگایا پانی کے ذریعے، اسی طرح اسباب والی تمام چیزیں اور مخلوقات واسطوں اور اسباب کے ذریعے پیدا کیں۔ یہ درست ہے۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ التَّأثير بمعنیٰ پیدا اور ایجاد کرنا اللہ کے ساتھ خاص ہے۔ ’تاثير‘ کا لفظ مجمل ہے۔ اس موقعے پر اہلِ السنت کا طرزِ عمل توقّف ہے، اس لئے کہ اس حوالے سے قرآن و سنت میں کچھ بھی وارد نہیں ہوا۔ تفصیل کے موقعے پر اگر اس سے درست معنیٰ مُراد لیا جائے تو اسے ثابت رکھتے ہیں اور اگر باطل معنیٰ مُراد لئے جائیں تو اس کی نفی کرتے ہیں۔
تاثِير: کسی چیز میں اثر کا باقی رہنا، ’أَثَر‘ کسی چیز میں علامت کو کہتے ہیں۔ ’أثَر الشَّيءِ‘ ایسی علامت جو چیز کے وجود پر دلالت کرے۔ ’أثَرُ السَّيْفِ‘ یعنی تلوار کی مار۔