البحث

عبارات مقترحة:

الحي

كلمة (الحَيِّ) في اللغة صفةٌ مشبَّهة للموصوف بالحياة، وهي ضد...

الحسيب

 (الحَسِيب) اسمٌ من أسماء الله الحسنى، يدل على أن اللهَ يكفي...

الرب

كلمة (الرب) في اللغة تعود إلى معنى التربية وهي الإنشاء...

زنگ (مسلسل گناہوں کا دل پر لگنے والا زنگ)
(الرَّان)


من موسوعة المصطلحات الإسلامية

المعنى الاصطلاحي

گناہوں کی وہ تاریکی جو دل پر چھا جاتی ہے اور اس میں سرایت کرجاتی ہے یہاں تک کہ اسے حق کو دیکھنے اور اس کی پیروی کرنے سے روک دیتی ہے۔

الشرح المختصر

الرّانُ: اس سے مراد وہ سختی ہے جو گناہ در گناہ کی وجہ سے دل پر چھا جاتی ہے۔ کیونکہ گناہوں کا زنگ دل کو ڈھانک لیتا ہےجس سے متعدد امور جنم لیتے ہیں جن کا دل کو کمزور کرنے اور تخریبی افکار اور ان کے اسباب کے خلاف دفاعی قوت ختم کرنے میں گہرا اثر ہوتاہے۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں: 1۔ اللہ تعالی سے تعلق کا منقطع ہو جانا: جب بندہ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہی چلا جاتا ہے تو وہ اللہ سے دور ہو جاتا ہے اور اللہ اپنی نگرانی کو اس سے ہٹا کر بقدر گناہ اسے اس کے نفس کے سپرد کردیتا ہے۔اس طرح سے وہ شخص شیاطن جن وانس کا نشانہ بن جاتا ہے۔ 2۔ دل کی تاریکی اور اس کی سختی: جب دل میں زنگ زیادہ ہوجائے تو وہ اس کی بصیرت کو ختم کرکے اس کے سوچنے سمجھنے کے عمل کو کمزور کر دیتاہے۔ چنانچہ دل پر ظلمت طاری ہو جاتی ہےاور وہ زندگی کی راہوں میں بلانور تاریکیوں اور ہر قسم کی برائیوں اور آفات میں بھٹکتا پھرتا ہے۔ 3۔ یہ دل میں برائی کے مادے کو پروان چڑھاتا ہے: کیوں کہ گناہ دل کو صحت اور راست روی سے ہٹا کر بیمار اور منحرف بنا دیتے ہیں۔ اس طرح سے دل مریض اور بیمار رہنے لگتا ہے اور ان ادویہ سے اسے کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا جن سے دل کو زندگی ملتی اور اس کی اصلاح ہوتی ہے۔ چنانچہ دل پر گناہوں کا اثر ویسے ہی ہوتا ہے جیسے جسم پر امراض کا اثر۔ بلکہ گناہ تو دلوں کے ایسے امراض ہیں جن کی دوا سوائے ان کو چھوڑ دینے کے کچھ نہیں ہے۔ گناہ دل کو سخت کرتے ہیں اور ان فاسد جذبات کو تقویت دیتے ہیں جو ارادے پر اثرا انداز ہوتے ہیں۔ اس طرح سے دل اپنے اندر موجود دوافع وبواعث کے با وصف ان خارجی عوامل و محرکات سے تعامل کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے جو اس کے لیے شہوات کو مزین کر کے پیش کرتے ہیں اور اسے شبہات میں ڈال کر حقائق کو اس کے سامنے گڈ مڈ کر دیتے ہیں۔ اس کے دل میں جس قدر زنگ اور بگاڑ ہوتا ہے اسی قدر وہ ان خارجی محرکات کا اثر قبول کرتا ہے۔

التعريف اللغوي المختصر

الرّانُ: ڈھکن اور دبیز پردہ۔ اس کا حقیقی معنی ہے: زنگ لگ جانااور ڈھانک دینا۔ جب گناہ دل پر چھا جائے اور اس پر غالب ہو کر اسے ڈھانک لے تو کہا جاتا ہے: رانَ على قَلْبِهِ الذَّنْبُ۔ گناہ در گناہ کی وجہ سے دل پر جو سختی چھا جاتی ہے اس پر بھی اس کا اطلاق ہوتاہے۔