رائے (الرَّأْي)

رائے (الرَّأْي)


العقيدة الثقافة والدعوة أصول الفقه

المعنى الاصطلاحي :


گمانِ غالب کی بنیاد پر کسی معاملے میں درست نتیجہ نکالنے اور راجح کی معرفت کے لیے غور وخوض اور تأمُّل کرنا۔

الشرح المختصر :


’رائے‘ یعنی معرفت کی طلب اور پیچیدہ امور میں درست نظریہ جاننے کے لیے غور وخوض، بصیرت اور تأمُّل کا عمل۔ اس رائے کے عمل سے حاصل ہونے والے قضیے کو بھی رائے کہتے ہیں۔ ’رائے‘ مصدر سے مشتق اسم ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں: مذموم رائے: معتقدات میں مخالفِ سنن اور دین کے احکام وشرائع میں گمان کی بنیاد پر کوئی بات کہنی۔ ایسا عقل کی طرف رجوع کرنے اور اُسے شرعی نصوص پر مقدَّم کرنے سے ہوتا ہے۔ سلفِ صالحین کی عبارتوں میں مذکور ہے کہ ’رائے‘ کا اطلاق مقالاتِ بِدعیہ کے حاملین جیسے جہمیہ، خوارج، روافض وغیرہم کی باتوں پر ہوتا تھا، پھر آگے چل کر یہ ہر اُس شخص کے لیے عَلَم بن گیا جو دین میں گفتگو کرتے وقت عقل کی طرف رجوع کرے، خواہ اُسے نص پر مقدم کرے یا نہ کرے۔ اس کی چند شکلیں یہ ہیں: - دین میں ظن (گمان) کی بنیاد پر نصوص کی معرفت اور اس کے سمجھنے اور ان سے احکام مستنبط کرنے کی کوشش کرنا، ساتھ ہی ان میں کمی اور کوتاہی بھی کرنا۔ - جہمیہ، معتزلہ اور قدریہ وغیرہ جیسے بدعتی وگمراہ لوگوں کی وضع کردہ باطل قیاس آرائیوں سےاللہ تعالیٰ کے اسما و صفات اور افعال کی تعطیل وانکار سے عبارت رائیں۔ محمود رائے: ایسی رائے جس کا اعتماد کتاب وسنت پر ہو۔ اہلِ علم نے اس رائے سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی آرا، اور وہ رائیں جو نصوص کی تفسیر وتوضیح اور ان کے دلائل کی حیثیت اجاگر کرتی ہوں، نیزامت کی وہ متفقہ رائیں مراد لی ہیں جنھیں خَلَف نے اپنے اسلاف سے لیا ہو۔

التعريف اللغوي المختصر :


’رائے‘ یہ ’رأَی‘ فعل کا مصدر ہے۔ اس کے معنی ہیں گمانِ غالب کی بنیاد پر نقیضَین میں سے کسی ایک پر نفس کا اعتقاد رکھنا۔ اِس کا اطلاق دل کی رائے (بات) اور انسان جو امر مناسب خیال کرتا ہے، اُس پر ہوتا ہے۔ نیز ’عقل‘، ’تدبیر‘، غور وخوض اور تأمّل بھی اس کے معانی میں آتے ہیں۔