البر
البِرُّ في اللغة معناه الإحسان، و(البَرُّ) صفةٌ منه، وهو اسمٌ من...
ایک ایسا منہج جو کتاب و سنت کے اس فہم پر مبنی ہے جو اس امت کے بہترین لوگوں یعنی صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور قیامت کے دن تک آنے والے ان لوگوں کا ہے جو ان کے راستے پر کاربند رہتے ہیں، ان کے نقوش پا کی پیروی کرتے ہیں اور ان کے طریقے کو اپناتے ہیں۔
سلفیت: یہ سلف کی طرف نسبت ہے یعنی صحابہ کرام، تابعین اور ان کے پیروکار وہ ائمہ جن کی لوگ اقتداء کرتے ہیں اور جن کی دین و تقوی میں ظاہری و باطنی طور پر امامت مسلمہ ہے اور دین کے معاملہ میں ان کی عظمت شان بھی معروف ہے۔ لوگ نسل در نسل ان کا کلام قبول کرتے آئے ہیں اوراس پر عمل کرتے آئے ہیں۔ ان میں وہ لوگ شامل نہیں جو بدعتی ہیں اور جو ناپسندیدہ ناموں سے مشہور ہوئے یعنی وہ فرقے جو اہلِ سنت و جماعت یعنی امت کے ان فقہاء اور علماء کے مخالف تھے جن کے دینی امور میں اقتداء کی جاتی ہے۔ مثلاً خوارج، روافض، قدریہ، مرجئہ، جبریہ، جھمیہ، معتزلہ اور دیگر تمام فرقے۔ سلفیت کی نمایاں امتیازی خصوصیات یہ ہیں: منہج نقل پر کاربند رہنا اسی وجہ سے آغاز میں یہ'أهل الحديث' کے نام سے معروف ہوئے تاکہ ان کے مابین اور ان لوگوں کے مابین فرق ملحوظ رہے جو اس منہج کو چھوڑ بیٹھے تھے یعنی روافض، معتزلہ اور خوارج وغیرہ۔ اسی طرح انہیں 'أهل الأثر' کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ نصوص کو سمجھنے میں سلف صالح کی طرف رجوع کرتے ہیں جو زیادہ دقیق فہم اور صاف ذہن کے مالک تھے، دینداری میں وہ زیادہ سچے اور علم میں زیادہ گہرائی رکھتے تھے۔ ان میں تکلف کم تھا اورمشکاۃِ نبوت سے وہ قریب تر تھے۔
سَلَفِیتْ: یہ 'السلف' کی طرف نسبت ہے جو کہ ’’سَلَفَ، يَسْلَفُ، سُلُوفاً‘‘ سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے’’ وہ گزر گیا، آگے بڑھ گیا اور سبقت لے گیا‘‘۔ 'سَلَفُ الرَّجُل' سے مراد آدمی کے پہلے گزر جانے والے آباء اجداد، پہل کرجانے والے اور سبقت لے جانے والے اور اس کے قرابت دار ہو تے ہیں جو عمر اور فضل میں اس پر فوقیت رکھتے ہیں۔