الوهاب
كلمة (الوهاب) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعّال) مشتق من الفعل...
ایک اباحیت پسند یہودی فکری و اقتصادی تحریک جو لا مذہبیت، انفرادی ملکیت کے خاتمے اور پیدوار میں تمام لوگوں کی یکساں شراکت کی بنیاد پر قائم ہے۔
شیوعیت (کمیونزم): ایک ایسا نظام ہے جو انفرادی ملکیت کو کالعدم قرار دینے اور مال، عورتوں، اور دیگر انواعِ دولت اور کمائیوں پر سب لوگوں کے مشترکہ حق کے اصول پر قائم ہے۔ اس نظام کی بنیاد کارل مارکس نے رکھی تھی اور اس کی تنفیذ اس کے بعد آنے والے لوگوں نے کی۔ یہ نظام لادینیت پر مبنی ہے، اور کائنات اور زندگی کو ایک مادی نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے۔ یہ اپنے مقاصد کو آہن و آتش اور اپنے تمام وسائل کے ذریعےحاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان کے کچھ عقائد یہ ہیں: 1۔ اللہ کے وجود اور تمام غیبی امور کا انکار کرنا اور یہ کہنا کہ مادہ ہی ہر شے کی بنیاد ہے۔ ان کا شعار یہ ہے: ہم تین میں یقین رکھتے ہیں: مارکس، لینن اور اسٹالین، اور ہم تین باتوں کا انکار کرتے ہیں: اللہ، مذہب اور نجی ملکیت۔ 2۔ یہ لوگ تمام ادیان کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہیں اور انھیں قوموں کو بے حس کرنے کا ذریعہ اور سرمایہ دارانہ نظام کا خادم سمجھتے ہیں۔ تاہم یہ یہودیت کو اس سے مستثنی قرار دیتے ہیں، کیوں کہ ان کے خیال میں یہودی لوگ مظلوم قوم ہیں جنھیں اپنے دین کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے مسلوبہ حقوق کو واپس لے سکیں۔ 3۔ یہ انفرادی ملکیت کے خلاف ہیں اور اموال کی شراکت اور وراثت کے خاتمے کے قائل ہیں۔ 4۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا کی اس زندگی کے علاوہ نہ تو آخرت کا کوئی وجود ہے اور نہ ہی ثواب وعقاب ہے۔
شیوعیت: یہ ”شيع“ سے ماخوذ ہے جس کا معنی ”منشتر ہونا“ اور ”پھیلنا“ آتا ہے۔ کہا جاتا ہے ’’أشَعْتُ الـمالَ بين القَوْمِ‘‘ یعنی میں نے مال کو لوگوں کے مابین تقسیم کردیا۔ شیوعیت کا اطلاق شراکت، فکرِ کمیونزم اور اس کے حامی اور اس کی طرف منسوب شخص پر بھی ہوتا ہے۔
رمضانُ شهرُ الانتصاراتِ الإسلاميةِ العظيمةِ، والفتوحاتِ الخالدةِ في قديمِ التاريخِ وحديثِهِ.
ومنْ أعظمِ تلكَ الفتوحاتِ: فتحُ مكةَ، وكان في العشرينَ من شهرِ رمضانَ في العامِ الثامنِ منَ الهجرةِ المُشَرّفةِ.
فِي هذهِ الغزوةِ دخلَ رسولُ اللهِ صلّى اللهُ عليهِ وسلمَ مكةَ في جيشٍ قِوامُه عشرةُ آلافِ مقاتلٍ، على إثْرِ نقضِ قريشٍ للعهدِ الذي أُبرمَ بينها وبينَهُ في صُلحِ الحُدَيْبِيَةِ، وبعدَ دخولِهِ مكةَ أخذَ صلىَ اللهُ عليهِ وسلمَ يطوفُ بالكعبةِ المُشرفةِ، ويَطعنُ الأصنامَ التي كانتْ حولَها بقَوسٍ في يدِهِ، وهوَ يُرددُ: «جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا» (81)الإسراء، وأمرَ بتلكَ الأصنامِ فكُسِرَتْ، ولما رأى الرسولُ صناديدَ قريشٍ وقدْ طأطأوا رؤوسَهمْ ذُلاً وانكساراً سألهُم " ما تظنونَ أني فاعلٌ بكُم؟" قالوا: "خيراً، أخٌ كريمٌ وابنُ أخٍ كريمٍ"، فأعلنَ جوهرَ الرسالةِ المحمديةِ، رسالةِ الرأفةِ والرحمةِ، والعفوِ عندَ المَقدُرَةِ، بقولِه:" اليومَ أقولُ لكمْ ما قالَ أخِي يوسفُ من قبلُ: "لا تثريبَ عليكمْ اليومَ يغفرُ اللهُ لكمْ، وهو أرحمُ الراحمينْ، اذهبوا فأنتمُ الطُلَقَاءُ".