الأعلى
كلمة (الأعلى) اسمُ تفضيل من العُلُوِّ، وهو الارتفاع، وهو اسمٌ من...
کفار کی ایک قوم جو فرشتوں اور ستاروں کی پرستش کرتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ صابئہ اہلِ کتاب کا ایک گروہ ہے۔
صابئہ کی تعریف اور ان کی حقیقت کے بارے میں اہلِ علم کے مختلف اقوال ہیں، جن میں سے کچھ حسبِ ذیل ہیں: 1- یہ ایسی قوم ہے جو نوح علیہ السلام کے دین پر تھے۔ 2- یہ نصرانیوں کی ایک قسم ہے جو باتچیت میں نصاری سے نرم ترین لوگ تھے۔ 3- یہ ایسی قوم ہے جس کا دین یہودیت اور مجوسیت کی آمیزش سے مرکب ہے۔ 4- یہ یہود ونصاری کے مابین ایک گروہ ہے۔ 5- یہ ایسی قوم ہے جو فرشتوں کی پرستش کرتے ہیں، قبلہ رو ہو کر نمازیں پڑھتے ہیں، زبور کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز پنج گانہ ادا کرتے ہیں۔ 6-ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ ایسی قوم کے افراد ہیں جو ”لا الہ الا اللہ“ کہتے تو ہیں تاہم عمل میں کورے ہیں، کسی آسمانی کتاب کو مانتے ہیں نہ ہی کسی نبی پر ان کا ایمان ہے۔ 7- صابئہ کے دو نمایاں فرقے ہیں، مگر نام میں یکسانیت کے باوجود وہ ایک دوسرے میں داخل نہیں ہیں۔ اور وہ دونوں فرقے یہ ہیں: أ: حرّانی صابئہ: یہ نصاری سے بھی قدیم ترین قوم ہیں، جو ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے زمانے میں پائے جاتے تھے، سات ستاروں کی پرستش کرتے، ان میں تاثیر کا عقیدہ رکھتے اور ان کا یہ خیال ہے کہ فلک میں جان ہوتی ہے اور ان میں قوت گویائی پائی جاتی ہے۔ ب: اہلِ کتاب کا ایک گروہ ہے نصاری اور ان کے مابین مشابہت ہے، اس لیے کہ یہ دین کے کئی امور میں ان کے مخالف ہیں اور نصاری انہیں ’یوحانسیہ‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک تیسرے فرقہ کا اضافہ کیا ہے، جو توراۃ اور انجیل سے پہلے تھا اور وہ لوگ توحید پرست تھے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کی اللہ تعالی نے اپنے اس قول کے ذریعہ ستائش کی ہے: ”إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآْخِرِ وَعَمِل صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ“. ترجمہ: مسلمان ہوں، یہودی ہوں، نصاریٰ ہوں یا صابی ہوں، جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ﻻئے اور نیک عمل کرے ان کے اجر ان کے رب کے پاس ہیں اور ان پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ اداسی۔ (سورۃ البقرة : 62)
صابئہ: صابئ کی جمع ہے، اور اس سے مراد وہ شخص ہے جو ایک دین کو چھوڑ کر دوسرے دین کو اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے اصل معنی خارج ہونے اور نمایاں ہونے کے ہیں، اسی سے جب کوئی شخص دین سے نکل جائے تو کہا جاتا ہے: ”صَبَأَ فُلانٌ، يَصْبَأُ“ کہ وہ بے دین ہوگیا۔ بعد میں یہ لقب کفار کے ایک مخصوص گروہ کے ساتھ خاص ہوگیا۔
رمضانُ شهرُ الانتصاراتِ الإسلاميةِ العظيمةِ، والفتوحاتِ الخالدةِ في قديمِ التاريخِ وحديثِهِ.
ومنْ أعظمِ تلكَ الفتوحاتِ: فتحُ مكةَ، وكان في العشرينَ من شهرِ رمضانَ في العامِ الثامنِ منَ الهجرةِ المُشَرّفةِ.
فِي هذهِ الغزوةِ دخلَ رسولُ اللهِ صلّى اللهُ عليهِ وسلمَ مكةَ في جيشٍ قِوامُه عشرةُ آلافِ مقاتلٍ، على إثْرِ نقضِ قريشٍ للعهدِ الذي أُبرمَ بينها وبينَهُ في صُلحِ الحُدَيْبِيَةِ، وبعدَ دخولِهِ مكةَ أخذَ صلىَ اللهُ عليهِ وسلمَ يطوفُ بالكعبةِ المُشرفةِ، ويَطعنُ الأصنامَ التي كانتْ حولَها بقَوسٍ في يدِهِ، وهوَ يُرددُ: «جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا» (81)الإسراء، وأمرَ بتلكَ الأصنامِ فكُسِرَتْ، ولما رأى الرسولُ صناديدَ قريشٍ وقدْ طأطأوا رؤوسَهمْ ذُلاً وانكساراً سألهُم " ما تظنونَ أني فاعلٌ بكُم؟" قالوا: "خيراً، أخٌ كريمٌ وابنُ أخٍ كريمٍ"، فأعلنَ جوهرَ الرسالةِ المحمديةِ، رسالةِ الرأفةِ والرحمةِ، والعفوِ عندَ المَقدُرَةِ، بقولِه:" اليومَ أقولُ لكمْ ما قالَ أخِي يوسفُ من قبلُ: "لا تثريبَ عليكمْ اليومَ يغفرُ اللهُ لكمْ، وهو أرحمُ الراحمينْ، اذهبوا فأنتمُ الطُلَقَاءُ".