القدوس
كلمة (قُدُّوس) في اللغة صيغة مبالغة من القداسة، ومعناها في...
صفات: يعنی اللہ تعالی کی وہ صفاتِ کمال وجمال اور صفاتِ جلال جو کتاب وسنت سے ثابت ہیں اور وہ ذاتِ الہی کو دیگر ذوات سے ممتاز کرتی ہیں۔
اللہ عزوجل نے اپنے آپ کو متعدد صفات سے متصف کیا ہے، خواہ وہ ذاتی ہوں جیسے دو ہاتھ اور چہرہ یا معنوی ہوں جیسے علم، قدرت، زندگی یا فعلیہ ہوں جیسے نزول اوراستواء، اپنے بندوں کو اس سے واقف کرایا، اور یہی صفتیں خالق سبحانہ وتعالی کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں اور بندوں کے لیے رب عزوجل کے کمال، اس کی عظمتِ شان اور اس کی قدرت کے جلال کو ظاہر کرتی ہیں اور بندے کے لیے اللہ عزوجل کی معرفت کوبڑھا دیتی ہیں۔ اور اللہ تعالی کی طرف کسی صفت کا اضافہ کرنے کا ضابطہ واصول یہ ہے کہ جو صفت اس کے علاوہ کے ساتھ قائم ہو جس کے لیے کوئی محل نہ ہو یعنی اضافت اور تخصیص سے پہلے، چنانچہ اللہ تعالی صرف اسی صفات سے متصف ہوتا ہے جو اس کے ساتھ قائم ہوں نہ کہ ان صفتوں کے ساتھ جسے وہ اپنے علاوہ میں پیدا کرتا ہے اور یہی صفت کی حقیقت ہے کیونکہ ہر موصوف اسی کے ساتھ متصف ہوتا ہے جس کے ساتھ وہ قائم ہو نہ کہ ان صفات کے ساتھ جو اس سے جدا ہوں اور غیر کی صفت ہوں۔ اور وہ صفات جو اللہ تعالی سے متعلق ہیں اس کی متعدد قسمیں ہیں: 1. ثبوتی صفات: یعنی وہ صفتیں جنہیں اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں اپنے لیے یا اپنے رسول کی زبانی ثابت فرمایا ہے اور سب صفاتِ کمال ہیں جن میں کسی بھی طرح کا کوئی نقص نہیں ہے جیسے زندگی، علم، قدرت، استواء، دونوں ہاتھ، اور چہرہ۔ چنانچہ ان صفات کو اللہ کے شایان شان ثابت کرنا واجب ہے۔ 2. منفی صفات: اور انہیں صفاتِ سلبیہ بھی کہا جاتا ہے یعنی وہ صفتیں جن کی اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں یا اپنے رسول کی زبانی نفی فرمائی ہیں۔ جیسے گونگا پن، نیند وغیرہ صفاتِ نقص، چنانچہ اللہ تعالی سے ان صفات کی نفی واجب ہوگی۔ 3. ذاتی صفات: یعنی وہ صفتیں جن سے اللہ تعالی سدا متصف رہا ہے اور ہمیشہ ان سے متصف رہے گا اور یہ صفتیں کبھی اللہ سبحانہ وتعالى سے الگ نہیں ہوتی ہیں جیسےعلم، قدرت، سننا، ديكهنا، عزت، حکمت، چہرہ اور دونوں ہاتھ۔ 4. فعلی صفات: انہیں اختیاری صفات بھی کہا جاتا ہے۔ ان سے مراد وہ صفات ہیں جو اللہ تعالی کی مشیت سے متعلق ہیں، اگر وہ چاہے تو کرے اور چاہے تو نہ کرے اور حسبِ مشیت ان کی تجدید ہوتی رہتی ہے جیسے عرش پر مستوی ہونا، آسمان دنیا کی طرف اترنا۔ اور کبھی دو اعتبار سے صفت ذاتی اور فعلی دونوں ہوتی ہے جیسے کلام، یہ باعتبار اصل ذاتی ہے اور انفرادی کلام کے اعتبار سے فعلی صفت ہے کیونکہ کلام اس کی مشیت سے متعلق ہے جب وہ چاہتا ہے اور جس طرح چاہتا ہے کلام کرتا ہے۔ 5. عقلی صفات:وہ صفات ہے جن کے اثبات میں شرعی و سمعی اور عقلی دلیل اورفطرت سلیمہ مشترک ہوں۔ اور اللہ تعالی کی اکثر صفات اسی طرح ہیں جیسے صفتِ سمع (سننا)، صفتِ بصر (دیکھنا)، صفتِ قوت اور صفت قدرت وغیرہ۔ 6. خبرى صفات: وہ صفتیں جو نص کے علاوہ کسی اور طریقے سے نہ جانی جاسکیں جب کہ عقل سلیم اس کے منافی نہ ہو، جیسے دونوں ہاتھ اور آسمانِ دنیا پر نزول کی صفت۔
صِفات: یہ صِفَةٌ کی جمع ہے جو وَصَف کا مصدر ہے اور اس کا معنی ہے نعت (خوبی)، کہا جاتا ہے ’’وَصَفَ الشَّيءَ، يصِفُهُ، وَصْفاً وصِفَةً‘‘ یعنی میں نے اس چیز کی وہ صفت بیان کی جو اُس میں پائی جاتی ہے اور صفت يعنی خلقت اور اس علامت کو کہتے ہیں جو شے کے ساتھ لازم ہو۔