الغفور
كلمة (غفور) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فَعول) نحو: شَكور، رؤوف،...
ایسا علم جس میں شرعی دلائل کی طرف رجوع کئے بغیر ایمانی عقائد پر عقلی دلائل سے حجت پکڑی جاتی ہے۔
عِلمِ کلام: ایک ایسا علم ہے جسے متکلمین نے اصولِ دین میں ایجاد کیا ہے تاکہ وہ اپنے عقائد کو شرعی نصوص کی طرف رجوع کئے بغیر عقلی دلائل دے کر ثابت کرسکیں۔ اس کی وجہ تسمیہ کے بارے میں مختلف اقوال ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں: 1۔ عقائد میں متکلمین کی ابحاث کا عنوان یہ عبارت ہوتی تھی کہ ’’الكَلامُ في كذا وكذا‘‘ (اس وجہ سے اس علم کا نام علمِ کلام پڑگیا)۔ 2۔ یہ شرعی امور کے اثبات میں کلام کرنے کی قدرت پیدا کرتا ہے اور مدِ مقابل کو لا جواب کرنے کے کام آتا ہے۔ چنانچہ یہ ایسے ہی ہے جیسے فلسفہ کے لیے علم منطق۔ 3۔ ایک قول کے مطابق (اسے یہ نام دینے کی وجہ یہ ہے کہ ) دین میں سب سے پہلا اختلاف اللہ عزوجل کے کلام کے متعلق واقع ہوا یعنی یہ اختلاف کہ آیا کلام اللہ مخلوق ہے یا غیر مخلوق۔ لوگوں نے اس مسئلہ میں کلام کیا چنانچہ اس وجہ سے اس نوع کے علم کا نام علمِ کلام پڑ گیا اور یہ اسی کے ساتھ خاص ہوگیا۔ ان کے علاوہ بھی دیگر اقوال ہیں۔ متکلمین کی اصطلاح کے تحت بہت سے فرقے آتے ہیں جنہوں نے اعتقاد کے باب میں علم کلام کے منہج کو اپنایا جیسے جہمیہ، معتزلہ، اشاعرہ وغیرہ۔ اسلاف اور ائمہ نے کتاب و سنت کے خلاف ایجاد کردہ علمِ کلام کو اپنانے والوں کی مذمت کی ہے؛ کیوں کہ اس میں دلائل اور احکام ہیں ایسے باطل امور ہیں جن سے رسول ﷺ کی بتائی ہوئی بعض باتوں کی تکذیب ہوتی ہے۔