الرب
كلمة (الرب) في اللغة تعود إلى معنى التربية وهي الإنشاء...
عقلی دلیل جو ہر اس قید اور تسلط سے آزاد ہو جو خارج سے اس پر لاگو کی جائے، بایں طور کہ عقل وحی وغیرہ پر حاکم اور فیصل ہو۔
فلسفہ کی بنیاد عقل کو ہر ماخذ پر ترجیح اور تقدیس دینے پر ہے۔ شروع میں اس کا اطلاق ابتدائی اصولوں کے مطالعہ اور عقلی طور پر معرفت (علم) کی تشریح پر ہوتا تھا۔ اس کی غرض و غایت حقیقت کی تلاش تھی۔ یہ کئی مراحل سے گزرا ہے اور انھوں نے اس کے چار اجزاء کیے ہیں، جو یہ ہیں: 1. انجنیئرنگ اور ریاضی۔ 2. منطق: جو شے کی تعریف، دلیل اور ان کے شرائط کے بارے میں بحث کرتی ہے۔ 3. الٰہیات: جس میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے بارے میں بحث ہوتی ہے۔ 4. طبیعیات: جس میں اجسام اور اس کے خواص کے بارے میں بحث ہوتی ہے۔ فلاسفہ وہ گروہ ہے جو حق اور نبیوں کے مذاہب سے نکل گئے اور انھوں نے وحی کو عقلی دلائل سے بدل دیا۔ انھوں نے اپنے علوم کو یونان کے بت پرست ملحدوں سے اخذ کیا۔ ان کی کئی قسمیں ہیں، انہی میں سے: دہریّہ، طبیعیات اور الٰہیات سے بحث کرنے والے، جیسے گروہ ہیں۔ فلسفہ کی تین قسمیں ہیں: پہلی قسم: حسّی فلسفہ: یہ حواس سے متعلق ہوتا ہے، اور اس کا موضوع عالَمِ طبیعت (فطرت) ہے۔ دوسری قسم: نظری اور عقلی فلسفہ: یہ برھانی استدلال اور نظری استنباط سے انجام پاتا ہے۔ اس کے حاملین کو مشائیّہ کہتے ہیں; اس کی نسبت اس کے صدر ارسطو کی طرف ہے جو اپنے متبعین کو چلتے ہوئے سکھاتا تھا۔ تیسری قسم: اشراقی فلسفہ: وہ فلسفہ جو تخمینہ، الہام اور نفس پر ہونے والے فیضان سے حاصل ہوتی ہے۔ اس کا موضوع علومِ الٰہیّہ ہیں۔ یونان کے مشہور فلسفی: افلاطون اور ارسطو ہیں۔ اسلام سے منسوب مشہور فلسفی: کندی، فارابی اور ابن سینا ہیں۔ فلاسفہ کے بعض غلط عقائد درج ذیل ہیں: 1. دنیا کے قدیم (یہ کہ دنیا بغیر کسی موجد کے وجود میں آگئی، یا یہ کہ اس عالم پر کبھی عدم گزرا ہی نہیں) ہونے کا قائل ہونا۔ 2. اللہ کے علم اور انبیاء کی کتابوں کا انکار کرنا۔ 3. آخرت اور جنت و جہنم کا انکار کرنا۔ 4. ان کے ہاں فرشتے عقل کا نام ہیں۔ 5. فلسفی نبی سے اعلیٰ درجہ رکھتا ہے۔ وغیرہ۔
فَلْسَفَہ: حکمت۔ کہا جاتا ہے: ”تَفَلْسَفَ، يَتَفَلْسَفُ، فَلْسَفَةً“ یعنی مسائل کو حکمت ودانائی کےساتھ دیکھنا۔ یہ ایک یونانی لفظ ہے جو دو کلموں سے مرکّب ہے۔ پہلا کلمہ ’فِيلاَ‘ ہے، اس کا معنیٰ ایثار ہے۔ بعض اہلِ لغت نے اس کا معنیٰ محبت بھی کیا ہے۔ دوسرا کلمہ ’سُوفِيَا‘ ہے، اس کا معنیٰ حکمت ہے۔
رمضانُ شهرُ الانتصاراتِ الإسلاميةِ العظيمةِ، والفتوحاتِ الخالدةِ في قديمِ التاريخِ وحديثِهِ.
ومنْ أعظمِ تلكَ الفتوحاتِ: فتحُ مكةَ، وكان في العشرينَ من شهرِ رمضانَ في العامِ الثامنِ منَ الهجرةِ المُشَرّفةِ.
فِي هذهِ الغزوةِ دخلَ رسولُ اللهِ صلّى اللهُ عليهِ وسلمَ مكةَ في جيشٍ قِوامُه عشرةُ آلافِ مقاتلٍ، على إثْرِ نقضِ قريشٍ للعهدِ الذي أُبرمَ بينها وبينَهُ في صُلحِ الحُدَيْبِيَةِ، وبعدَ دخولِهِ مكةَ أخذَ صلىَ اللهُ عليهِ وسلمَ يطوفُ بالكعبةِ المُشرفةِ، ويَطعنُ الأصنامَ التي كانتْ حولَها بقَوسٍ في يدِهِ، وهوَ يُرددُ: «جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا» (81)الإسراء، وأمرَ بتلكَ الأصنامِ فكُسِرَتْ، ولما رأى الرسولُ صناديدَ قريشٍ وقدْ طأطأوا رؤوسَهمْ ذُلاً وانكساراً سألهُم " ما تظنونَ أني فاعلٌ بكُم؟" قالوا: "خيراً، أخٌ كريمٌ وابنُ أخٍ كريمٍ"، فأعلنَ جوهرَ الرسالةِ المحمديةِ، رسالةِ الرأفةِ والرحمةِ، والعفوِ عندَ المَقدُرَةِ، بقولِه:" اليومَ أقولُ لكمْ ما قالَ أخِي يوسفُ من قبلُ: "لا تثريبَ عليكمْ اليومَ يغفرُ اللهُ لكمْ، وهو أرحمُ الراحمينْ، اذهبوا فأنتمُ الطُلَقَاءُ".