فنائے عالم (فَنَاءُ الْعَالَم)

فنائے عالم (فَنَاءُ الْعَالَم)


العقيدة

المعنى الاصطلاحي :


دنیا کا زوال پذیر ہونا، اس کی بقاء کی مدت کا ختم ہونا اور اس کا بالکل ہلاک ہو جانا۔

الشرح المختصر :


اہلِ بدعت میں سے جہمیہ اور ان کے بعض ہم خیال کا گمان ہے کہ اللہ تعالیٰ پوری کائنات کو ختم کرے گا اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات باقی رہے گی۔ چنانچہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی چیز باقی نہیں رہے گی۔ انھوں نے اللہ کے سوا ہر چیز کے نہ ہونے کا یقین کیا۔ پھر ان میں اختلاف ہوا۔ ’جہم‘ نے کہا کہ پوری کائنات ختم ہو جائے گی، اگرچہ کائنات دوبارہ پیدا کی جائے گی، تاہم جنت اور جہنم فنا ہو جائیں گے، یہ دونوں باقی نہیں رہیں گے، اس لئے کہ یہ حادث چیزوں کے دائمی ہونے کو مستلزم ہے۔ جب کہ جہم کے ہاں یہ ماضی اور مستقبل میں ابتداءً و انتہاءً ممتنع ہے۔ ان میں سے اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب پوری کائنات کو ختم کردے گا، دوبارہ پیدا کرے گا، پھر اسے ختم نہیں کرے گا، بلکہ جنت تو ہمیشہ باقی رہے گی اور جہنم کے بارے میں دو اقوال ہیں۔ ان میں اصحابِ نظر کے تین اقوال ہیں: ایک یہ کہ جہنم یقیناً ختم ہو جائے گی۔ دوسرے یہ کہ اس میں توقّف اختیار کرنا چاہیئے جو کہ جائز ہے۔ تاہم اس کے وجود اور عدم کے بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تیسرے یہ کہ یقیناً یہ ختم نہیں ہوگی۔ یہی صحیح قول ہے۔ قرآن اس پر دلالت کرتا ہے کہ کائنات کا ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہونا محال ہے، آسمان پھٹ کر سرخ ہو جائے جیسے کہ سرخ چمڑه، پہاڑ چلنے لگیں گے، زمین ریزہ ریزہ ہو جائے گی، سمندر بھڑک اٹھیں گے، ستارے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے، اس کے علاوہ وہ احداث جو قرآن نے بتائے ہیں۔ تاہم اس نے یہ نہیں بتایا کہ ہر چیز ختم ہوجائے گی، بلکہ اس كى تفصىلى بیان تو یہ بتاتا ہے کہ موجودات ختم نہیں ہوں گے۔ فناء جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے اس سے مُراد موت ہے، اس سے چیزوں کا معدوم ہونا نہیں۔ اس لئے کہ لوگ جب مر جاتے ہیں، تو ان کی روحیں جہاں اللہ چاہتا ہے چلی جاتی ہیں خواہ انھیں راحت ملے یا عذاب، ان کے جسم قبروں وغیرہ میں ہوتے ہیں، اکثر بوسیدہ ہو جاتے ہیں، کچھ بوسیدہ نہیں ہوتے جیسے انبیاء علیہم السلام کے اجسام مبارکہ۔ لہذا ساری کائنات کے فناء ہونے کے قائلین نے جب اس بات کا دعوی کیا کہ اس کا فناء ہونا ممکن اور امرِ واقع ہے، تو انہیں اس طرح کے غلط اقوال کی ضرورت پڑے گی، ورنہ وہ فناء جس كا ذكر قرآن نے کیا ہے اس بات پر گواہ ہے کہ اُس فنا سے مراد دوسرے مادّہ میں تحول وتغیر واقع ہونا ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا کسی مدہ سے ایجاد کرنا۔