پانسے كے تيروں سے فال نکالنا (الاسْتِقْسَامُ)

پانسے كے تيروں سے فال نکالنا (الاسْتِقْسَامُ)


الفقه العقيدة أصول الفقه

المعنى الاصطلاحي :


پانسے كے تيروں اور اس طرح کی دوسری اشياء کے ذریعہ نصیب اور قسمت کا حال معلوم کرنا۔

الشرح المختصر :


استقسام: یہ تیروں -تختیوں- یا اس کی طرح کی دوسری اشیاء کے ذریعے قرعہ اندازی اور فیصلہ کرنے کی ایک قسم ہے۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ ان تختیوں میں سے کسی پر ”اِفْعَلْ“ (کرو) لکھ دیتے اور کسی پر ”لاَ تَفْعَلْ“ (نہ کرو) لکھ دیتے اور تیسری قسم کو بنا کچھ لکھے خالی ہی چھوڑ دیتے۔ پھر انہیں کسی برتن یا صندوق میں رکھ دیتے۔ پس جب کوئی شخص عازمِ سفر ہوتا یا اسے کوئی تجارت کرنی ہوتی یا نکاح کا ارادہ ہوتا یا پھر اسےکوئی اور کام درپیش ہوتا تو وہ ان تختیوں سے فال نکالتا۔ اب اگر ”کرو“ والی تختی نکل آتی تو وہ اپنے اس کام کو کر گزرتا اور اگر ”نہ کرو“ (ممانعت) والی تختی نکل آتی تو اس کام کو چھوڑ دیتا اور اپنے ارادے سے رجوع کرلیتا اور اگر خالی تختی نکل آتی تو ایک دفعہ پھر ایسے ہی کرتا (یعنی دوبارہ فال نکالتا)۔ اور جب اسلام آیا تو اس نے استقسام کو باطل قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو اس کے بدلے میں استخارے کا عمل سکھلایا۔

التعريف اللغوي المختصر :


استقسام: کسی شے کی تقسیم اور حصوں میں بانٹنے کا مطالبہ کرنا۔ اسی سے کہا جاتا ہے: ”اسْتَقْسَمَ فُلاَنٌ شَرِيكَهُ“ کہ فلاں نے اپنے پارٹنر سے اپنا حصہ اور اپنا حق مانگا۔ ’استقسام‘ کے لفظ کا اطلاق زمانہ جاہلیت کے اس طریقے پر بھی ہوتا ہے جس میں تیروں وغیرہ کے ذریعہ، تقدیر کے بُرے بھلے ہونے کا علم حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے۔