مُقارَبہ، یہودیوں کا ایک فرقہ جسے یوذعانیّہ بھی کہا جاتا ہے۔ (الْمُقَارَبَة)

مُقارَبہ، یہودیوں کا ایک فرقہ جسے یوذعانیّہ بھی کہا جاتا ہے۔ (الْمُقَارَبَة)


علوم القرآن العقيدة

المعنى الاصطلاحي :


یہ یہودیوں کا ایک فرقہ ہے جسے یوذعانیّہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ھمدان کے یوذعان کی طرف منسوب ہے جو اس بات کا قائل تھا کہ تورات کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے۔ وہ تشبیہ کے معاملے میں یہود سے اختلاف رکھتا تھا، اس کے ساتھ ساتھ وہ تقدیر اور بندے کے لئے فعل کے حقیقی طور پر اثبات کا رجحان رکھتا تھا ۔

الشرح المختصر :


’مقاربہ‘ یا ’یوذعانیہ‘، یوذعان بن ھمدان کی طرف منسوب ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ اس کا نام یھوذا تھا۔ یہ زہد اور نماز کی کثرت کی ترغیب دیا کرتا تھا اور گوشت و شراب نوشی سے منع کرتا تھا۔ اس کا گمان تھا کہ تورات کا ایک باطن ہے اور ایک ظاہر، اور اسی طرح ایک نزولی معنی ہے اور ایک تاویلی۔ اپنی (منفرد) تاویلات کے باعث وہ عام یہودیوں سے مختلف آراء رکھتا تھا۔ تشبیہ کے مسئلے میں بھی اس نے دیگر یہودیوں سے مختلف رائے اختیار کی۔ وہ تقدیر کی طرف رجحان رکھتا تھا، اور فعل کو انسان کے لئے حقیقۃً ثابت جانتا تھا، اور اسی پر ثواب و عقاب کو موقوف مانتا تھا، اور اس معاملے میں وہ بہت زیادہ شدت سے کام لیتا تھا۔ مقاربہ فرقے کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتے کے ذریعے انبیاء علیہم السلام کو مخاطب کیا۔ اس فرشتے کو تمام مخلوق پر پیش کرکے اسے ان پر خلیفہ بنایا۔ ان کا کہنا ہے کہ تورات اور دیگر آسمانی کتابوں میں اللہ تعالیٰ کے جو اوصاف بیان ہوئے ہیں وہ سب اسی فرشتے کے بارے میں ہیں۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کو کسی صفت سے متصف کرنا جائز نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جس ہستی نے کلام کیا وہ یہی فرشتہ تھا، اور تورات میں جس درخت کا ذکر آیا ہے وہ یہی فرشتہ ہے۔ اور ان کے خیال میں خود اللہ کی ذات کسی بشر کے ساتھ گفتگو کرنے سے برتر ہے۔ اور ان کا یہ بھی خیال ہے کہ عام طور پر یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی روحانی فرشتے کو اپنے خواص دے کر بھیجے، اسے اپنا نام دے اور کہے کہ یہ میرا قاصد ہے، اور تمہارے درمیان اس کی جگہ میری جگہ، اس کی بات میری بات، اس کا حکم میرا حکم اور اس کا ظہور میرا ظہور ہے۔ پس یہی حال اس فرشتے کا ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس فرقے کے بہت سے باطل عقائد ہیں۔

التعريف اللغوي المختصر :


’مُقارَبَہ‘ بابِ مفاعلہ سے مصدر کا صیغہ ہے۔ کہا جاتا ہے ’’قاربَ فُلانٌ في الأَمْرِ‘‘ یعنی اس نے اس کام میں غلو اور کوتاہی چھوڑ دی اور اعتدال کا تہیہ کرلیا۔ اس لفظ کی اصل قُرب پر دلالت کرتی ہے جو بُعد کی ضد ہے۔ جیسے کسی چیز کو قریب کرکے کہا جاتا ہے ’’قارَبَ الشَّيْءَ‘‘ کہ اُس نے شے کو قریب کرلیا۔