المصور
كلمة (المصور) في اللغة اسم فاعل من الفعل صوَّر ومضارعه يُصَوِّر،...
ہر وہ قضیہ، جس سے قیاس کی صورت تشکیل پاتی ہے خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا۔
’مقدِّمہ‘ کی اصطلاح اہلِ منطق کے یہاں مبحثِ ’قیاس‘ کے تحت آتی ہے۔ ان کے یہاں قیاس کا مطلب جزئیات کے حکم کی معرفت کے لیے کسی قاعدہ کلیہ کو اس کی جزئیات پر لاگو کرنا ہے۔ مقدمہ کا اطلاق کبھی اس شے پر ہوتا ہے، جس پر آنے والی بحثوں کا انحصار ہوتا ہے، کبھی اُس قضیہ پر ہوتا ہے، جو قیاس کا جز بنالیا جاتا ہے اور کبھی اس شے پر ہوتا ہے، جس پر دلیل کی صحت موقوف ہوتی ہے۔ مقدمہ کی دو قسمیں ہیں: 1- مقدمہ صغری؛ یہ اس جزئیہ پر مشتمل مقدمہ ہوتا ہے، جس کا حکم قیاس کے ذریعے استدلال کے راستے سے جاننا مقصود ہوتا ہے۔ 2- مقدمہ کبری؛ یہ وہ مقدمہ ہے، جو اُس قاعدہ کلیہ کی تشکیل کرتا ہے، جس کو جزئیہ پر لاگو کرکے قیاس کے ذریعے استدلال کے راستے سے اس کا حکم جاتاہے۔ مقدمہ صغری کی مثال: اہلِ منطق کے یہاں رائج قیاس کے ذریعے رؤیتِ باری تعالیٰ کے تصور کو معتزلہ نہیں مانتے، اس انکار کی وجہ دو مقدمات ہیں: پہلا مقدمہ: اللہ تعالیٰ کسی جہت میں نہیں ہے۔ دوسرا مقدمہ: ہر وہ شے جو کسی جہت میں نہ ہو، اُسے نہیں دیکھا جاسکتا۔ نتیجہ: اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔ مقدمہ کبری کی مثال: اہلِ کلام اللہ عزّ وجلّ کی صفات کا کچھ نام نہاد مقدمات کی بنیاد پر انکار کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ پہلے مقدمہ میں کہتے ہیں کہ صفات کا وجود جسم کے وجود کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ ’اجسام باہم متماثل ہوتے ہیں‘۔ اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ صفات کا اثبات تمثیل کو مستلزم ہے اور تمثیل کفر ہے؛ لہذا نفیِ صفات واجب وضروری ہے۔
مقدّمہ، لشکر کا وہ دستہ جو آگے آگے چلتا ہے (ہراوَل دستہ)۔ یہ قَدَّمَ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں آگے بڑھنا۔ ہر چیز کا مقدَّمہ اس کا پہلا حصہ ہوتا ہے اور ہر چیز کا مُقدَّمْ اس کے آخری سِرے کی ضد ہوتا ہے۔