صيام التطوع
ابو ہريرۃ رضي اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ: ‘‘سوموار اور جمعرات کو (اللہ کے ہاں) اعمال پيش کیے جاتے ہيں، لہٰذا مجھے يہ پسند ہے کہ ميرا عمل (بارگاہِ الٰہی میں) پيش کیا جائے تو ميں روزے سے ہوں’’۔ اور ايک دوسری روايت ميں ہےکہ: ‘‘پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہيں، اور ہر اس بندے کی مغفرت کر دی جاتی ہے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شريک نہيں کرتا، سوائے اس آدمی کے کہ اس کے اور اس کے بھائی کے درميان کوئی عداوت ہو، چناں چہ کہا جاتا ہے کہ: ان دونوں کو مہلت دے دو يہاں تک کہ يہ آپس ميں صلح کر ليں، ان دونوں کو مہلت دے دو يہاں تک کہ يہ آپس ميں صلح کر ليں’’۔ اور ايک دوسری روايت ميں ہے کہ: ‘‘ہر سوموار اور جمعرات کو (اللہ کے ہاں بندوں کے) اعمال پيش کیے جاتے ہيں، تو اللہ ہر اس بندے کو بخش دیتا ہے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شريک نہيں کرتا سوائے اس آدمی کے کہ اس کے اور اس کے بھائی کے درميان کوئی عداوت و دشمنی ہو، اور اللہ کہتا ہے: ان دونوں کو چھوڑ دو يہاں تک کہ يہ آپس ميں صلح کر ليں۔‘‘  
عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعًا: «تُعْرَضُ الأعمالُ يومَ الاثنين والخميس، فَأُحِبُّ أَنْ يُعْرَضَ عَملي وأنا صائم». وفي رواية: «تُفْتَحُ أبوابُ الجَنَّةِ يومَ الاثنين والخميس، فَيُغْفَرُ لكلِّ عبد لا يُشْرِكُ بالله شيئا، إِلا رجلا كان بينه وبين أخيه شَحْنَاءُ، فَيُقَالُ: أَنظِروا هذيْن حتى يَصْطَلِحَا، أنظروا هذين حتى يصطلحا». وفي رواية: «تُعْرَضُ الأَعْمَالُ في كلِّ اثْنَيْنِ وَخَميسٍ، فَيَغْفِرُ اللهُ لِكُلِّ امْرِئٍ لا يُشْرِكُ بالله شيئاً، إِلاَّ امْرَءاً كانت بينه وبين أخِيهِ شَحْنَاءُ، فيقول: اتْرُكُوا هذَيْنِ حتى يَصْطَلِحَا».

شرح الحديث :


‘‘اعمال پيش کیے جاتے ہيں’’ یعنی اللہ کے یہاں پیش کیے جاتے ہیں۔ ‘‘سوموار اور جمعرات کو، لہٰذا مجھے يہ پسند ہے کہ ميرا عمل (بارگاہِ الٰہی میں) پيش کیا جائے تو ميں روزے سے ہوں’’۔ یعنی بلندیٔ درجات میں کثرت و زیادتی طلب کرنے اجر و ثواب کے حصول کے لیے۔ اس حديث کے دوسرے الفاظ اس طرح ہيں: "ہر سوموار اور جمعرات کو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہيں" جنت کا کھلنا حقیقت پر مبنی ہے کیوں کہ جنت مخلوق ہے۔ اور آپ ﷺ کا یہ فرمان: "ان دو دنوں میں ہر اس بندے کی مغفرت کر دی جاتی ہے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شريک نہيں کرتا’’ یعنی بندے کے صغیرہ گناہوں کو بخش دیا جاتا ہے، اور رہے کبیرہ گناہ تو اس کے لیے توبہ ضروری ہے۔ اور آپ ﷺ کا یہ فرمان: ‘‘سوائے اس آدمی کے’’ یعنی اس انسان کے سوا۔ ‘‘کہ اس کے اور اس کے بھائی کے درميان’’ یعنی مسلمان بھائی کے درمیان، ‘‘شحناء’’ یعنی عداوت و دشمنی، ‘‘چناں چہ کہا جاتا ہے کہ: ان دونوں کو مہلت دے دو’’ یعنی اللہ فرشتوں سے کہتا ہے ان کے معاملے کو مؤخر کر کے انہیں مہلت دے دو، ‘‘یہ دونوں’’ یعنی یہ دونوں آدمی جن کے درمیان عداوت و دشمنی ہے اور ایسا ان کی سرزنش اور قطع تعلقی کے گناہ کی وجہ سے کہا جاتا ہے، ‘‘يہاں تک کہ’’ دشمنی رفع دفع ہو جائے اور ‘‘دونوں آپس ميں صلح کر ليں’’ یعنی آپسی تعلق کو قائم کر لیں کہ جس سے دشمنی ختم ہو جائے، یہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انسان پر واجب ہے کہ وہ عداوت و دشمنی اور آپسی بغض و نفرت کو جلدی ختم کرنے کی کوشش کرے، بھلے ہی وہ نفرت و عداوت کو ختم کرنے کی درخواست کرنے میں ذلت محسوس کرے۔ لھٰذا اسے چاہیے کہ وہ صبر کرے اور اجر و ثواب کی امید رکھے کیوں کہ اس سے متعلق انجام کار قابلِ ستائش ہے، اور انسان جب کسی عمل سے متعلق خیر و بھلائی اور اجر و ثواب کو جان لیتا ہے تو وہ عمل اس کے لیے آسان ہوتا ہے، ایسے ہی انسان جب کسی کام کے ترک کرنے پر وعید کو جان لیتا ہے تو اس کام کا کرنا اس کے لیے سہل و آسان ہو جاتا ہے۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية