المساقاة والمزارعة
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ انصار میں سب سے زیادہ کھیت ہمارے تھے۔ ہم اس شرط پر زمین بٹائی پر دیا کرتے تھے کہ ان کھیتوں کی پیداوار ہماری اور اُن کھیتوں کی پیداوار اُن کی (بٹائی پر لینے والوں کی)۔ بعض اوقات ایسا ہوتا کہ یہ زمین تو پیداوار دے دیتی، لیکن اس زمین سے کچھ بھی پیداوار نہ ہوتی۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایسا کرنے سے منع فرما دیا۔ تاہم آپ ﷺ نے چاندی (دراہم) کے عوض میں (زمین بٹائی پر دینے سے) منع نہیں فرمایا۔  
عن رافع بن خديج -رضي الله عنه- قال: «كنا أكثر الأنصار حقلًا، وكنا نكري الأرض، على أن لنا هذه، ولهم هذه، فربما أخرجت هذه، ولم تخرج هذه فنهانا عن ذلك، فأما بالورق: فلم ينهنا».

شرح الحديث :


حدیث میں زمین بٹائی پر دینے کی صحیح اور غلط صورتوں کی تفصیل ہے۔ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مدینے کے باشندوں میں سب سے زیادہ کھیت اور باغات ان کے خاندان کے تھے۔ وہ زمانۂ جاہلیت سے رائج طریقے پر زمین بٹائی پر دیا کرتے تھے۔ وہ کاشت کاری کی غرض سے اس شرط پر زمین دیا کرتے تھے کہ زمین کے ایک طرف کے حصے سے حاصل ہونے والی پیداوار ان کی ہوگی اور دوسری طرف سے حاصل ہونے والی پیدوار کاشت کار کی ہو گی۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ زمین کے اس حصے سے تو پیداوار ہو جاتی، جب کہ دوسرے حصے کی پیداوار تلف ہو جاتی۔ نبی ﷺ نے انھیں اس انداز میں معاملہ کرنے سے منع فرما دیا؛ کیوں کہ اس میں دھوکہ اور جہالت (عدم صراحت) ہے۔ عوض کا علم ہونا بہت ضروری ہے اور اسی طرح نفع اور نقصان کے مابین بھی برابری ہونی چاہیے۔ اگر زمین کی پیداوار کے ایک حصے کے بدلے میں اسے بٹائی پر دیا جائے، تو اس قسم کے معاملے کو مزارعت یا مساقات کہا جاتا ہے۔ یہ انصاف اور نفع و نقصان میں برابری کی بنیاد پر مبنی معاملہ ہونا چاہیے، بایں طور کہ ہر ایک کو پیداوار کی ایک مخصوص شرح ملے۔ یعنی چوتھائی یا نصف وغیرہ۔ اگرزمین کسی عوض کے بدلے میں بٹائی پر دی جائے، تو اسے اجارہ کہا جاتا ہے۔ اس قسم کے معاملے میں عوض کا معلوم ہونا ضروری ہوا کرتا ہے۔ یہ جائز ہے؛ چاہے سونے یا چاندی کے بدلے ہو، جسے اجارہ کہا جاتا ہے۔ یا زمین کی پیداوار کے عوض میں، جسے مزارعت کہا جاتا ہے؛ کیوں کہ حدیث کا عموم اسی کا تقاضا کرتا ہے۔ (شے معلوم اور یقینی ہو، تو اس میں کوئی حرج نہیں)  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية