الخروج على الإمام
عبادہ بن صامت رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات پر بیعت کی کہ مشکل اور آسانی میں، خوشی اور غمی میں اور خود پرترجیح دیے جانے کی صورت میں بھی سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔ اور اس بات پر بیعت کی کہ ہم اقتدار کے معاملے میں اصحاب اقتدار سے تنازع نہیں کریں گے۔ (آپ نے فرمایا:) سوائے اس کے کہ تم اس میں کھلم کھلا کفر دیکھو، جس کے (کفر ہونے پر) تمھارے پاس (قرآن اور سنت سے) واضح آثار موجود ہوں! نیز اس بات پر بیعت کی کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں گے، حق بات کہیں گے اور اس معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں کریں گے۔  
عن عبادة بن الصامت -رضي الله عنه- قال: بَايَعْنَا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على السَّمع والطَّاعَة في العُسْر واليُسْر، والمَنْشَطِ والمَكْرَه، وعلَى أَثَرَةٍ عَلَينا، وعلى أَن لاَ نُنَازِعَ الأَمْر أَهْلَه إِلاَّ أَن تَرَوْا كُفْراً بَوَاحاً عِندَكُم مِن الله تَعَالى فِيه بُرهَان، وعلى أن نقول بالحقِّ أينَما كُنَّا، لا نخافُ فِي الله لَوْمَةَ لاَئِمٍ.

شرح الحديث :


(بایعنا)یعنی صحابہ نے رسول اللہﷺکی اس بات پر بیعت کی کہ وہ (اولی الامر کی) سمع و طاعت کریں گے۔اس سے مراد ہر وہ شخص ہے جسے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺکے دور میں کسی معاملہ کا ذمہ دار بنایا۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے(ياأيها الذين آمنوا أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم)(النساء:59)(اے وہ لوگو جوایمان لائے ہو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اصحاب اقتدار کی (جو)تم میں سے ہوں پھراگر تم اختلاف کرو کسی چیز میں تو لوٹاؤ اسے اللہ اور رسول کی طرف اگر ہوتم ایمان رکھتے اللہ پر اور روز آخرت پر،یہ بہت اچھی بات ہے اور بہت بہتر انجام کے لحاظ سے)۔رسول اللہﷺکے بعد اولو الامر کے دو گروہ ہیں۔علماء اور حکمران۔علماء علم و (احكام شريعت كو)بیان كرنےکے ذمہ دار ہیں اور حکمران احکاماتِ شریعت کی تنفیذ اور عمل درآمدگی کے ذمہ دار ہیں۔راوی کہتے ہیں:بايعناه على السمع والطاعة(ہم نے سمع و اطاعت پر بیعت کی)اور فرمایا:في العسر واليسر(تنگی اور خوشحالی میں)۔یعنی چاہے رعیت مالی طور پر تنگی کا شکار ہو یا خوشحال ہو۔تمام رعایا پر چاہے وہ مالی طور پر امیر ہوں یا غریب یہ واجب ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کی اطاعت و فرمانبرداری کریں۔اسی طرح فرمایا:في المنشط و المكره۔یعنی چاہے رعایا بادل نا خواستہ ان کی اطاعت کرے بایں طور کہ انہیں کسی ایسی بات کا حکم دے دیا جائے جو ان کے لئے ناگوار و ناپسند ہو یا پھر خوشدلی سے ان کی فرمانبرداری کرے بایں طور کہ جس حکم کو بجا لانے کا انہیں کہا جائے وہ ان کے مزاج سے مناسبت اور موافقت رکھتا ہو۔وأثرة علينا:یعنی اگر حکمران رعیت کو محروم رکھتے ہوئے عوامی دولت وغیرہ پر تن تنہا قابض ہو کر بیٹھ جائیں اور اس کی بدولت خود تو خوشحال ہوتے جائیں اور جن لوگوں پر اللہ نے انہیں حکمران بنایا تھا انہیں اس سے محروم رکھیں تو اس صورت میں بھی ان کی اطاعت و فرمانبرداری واجب ہے۔پھر فرمایا:وألا ننازع الأمر أهله:یعنی حکمرانوں سے ہم اس اقتدار میں جھگڑا نہ کریں جو اللہ نے انہیں ہم پر بخشا ہے بایں طور کہ ہم ان سے اقتدار چھیننے کے درپے ہو جائیں کیونکہ اس قسم کا جھگڑا شدید قسم کی شرانگیزی اور فتنوں کا باعث بنتا ہے اور مسلمانوں کے مابین پھوٹ پیدا کرتا ہے۔عثمان رضی اللہ عنہ کے دور سے لے کر آج تک امت مسلمہ کو حکمرانوں کے ساتھ حکومت کے معاملہ میں اسی کشاکشی نے ہی تو تباہ کیا ہے۔ فرمایا:إلا أن تروا كفرا بواحا عندكم فيه من الله برهان:یہ چار شرائط ہیں۔جب ہم یہ دیکھ لیں اور یہ چاروں شرائط پوری ہو جائیں تو اس وقت ہم حکمرانوں سے لڑیں گے اور انہیں حکومت سے ہٹانے کی کوشش کریں گے۔تاہم ایسا کرنے کے لئے کچھ شرائط ہیں:اول:أن تروا:(تم دیکھ لو) چنانچہ یقینی علم کا ہونا ضروری ہے۔محض گمان کی بنا پر حکمرانوں کے خلاف خروج کرنا جائز نہیں۔دوم:ہمیں ان کی طرف سے کفر کے ارتکاب کا علم ہو نہ کہ فسق کا۔کیونکہ حکمران چاہے جتنے بھی فاسق ہو جائیں،ان کے فسق کی بنا پر ان کے خلاف خروج کرنا جائز نہیں ہے چاہے وہ شراب نوشی کریں، زنا کریں اور لوگوں پر ظلم و ستم ڈھائیں،بہرحال ان باتوں کی وجہ سے ان کے خلاف خروج کرنا جائز نہیں ہے۔تاہم جب ہمیں ان کی طرف سے صریح کفر کے ارتکاب کا علم ہو تو یہ’کفر بواح‘ہو گا (جس کی وجہ سے ان کے خلاف خروج جائز ہو جائے گا)۔سوم:کفر بواح:اس کا معنی ہے:صریح کفر۔’بواح‘سے مرادوہ شے ہے جو واضح اورظاہر ہو۔تا ہم اگر بات ایسی ہو جس میں تاویل کا احتمال ہو تو اس کی بنا پر ان کے خلاف خروج کرنا جائز نہیں ہو گا۔یعنی اگر ہمیں لگے کہ انہوں نے کسی ایسی شے کا ارتکاب کیا ہے جو ہمارے نزدیک کفر ہے تاہم احتمال ہو کہ ہو سکتا ہے وہ کفر نہ ہو تو اس صورت میں ہمارا ان سے لڑنا اور ان کے خلاف خروج کرنا جائز نہیں ہو گااور جب تک وہ حکمران رہیں گے ہم انہیں حکمران تسلیم کرتے رہیں گے۔تا ہم اگر کفر بالکل صریح اور کھلا ہو مثلا حکمران رعیت کے لئے زنا اور شراب نوشی کو جائز قرار دے دے (تو اس صورت میں اس کے خلاف خروج کیا جائے گا)۔چوتھی شرط:عندكم فيه من الله برهان:یعنی ہمارے پاس اس بات کے کفر ہونے کی قطعی دلیل ہو۔اگر دلیل کے ثبوت میں ضعف ہو یا پھر معنی کے اعتبار سے وہ ضعیف ہو تو اس صورت میں بھی ان کے خلاف خروج کرناجائز نہیں ہو گا۔کیونکہ خروج میں بہت زیادہ شر اور مفاسد ہیں۔اگر ہمیں کسی ایسی بات کا علم ہو (جس میں یہ چاروں شرائط پائی جائیں)تو اس صورت میں بھی صرف تب ہی حکمران سے لڑنا جائز ہو گا جب ہم میں اسے ہٹا دینے کی طاقت ہو۔اگر رعایا میں یہ قدرت نہ ہو تو پھر لڑنا جائز نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ قدرت نہ رکھتے ہوئے اگر رعایا حکمران سے لڑائی مول لے تو اس سے بچی کھچی بھلائی بھی جاتی رہے اور اس کا پوری طرح سے تسلط قائم ہو جائے۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ یہ شرائط یا تو خروج کے جواز کی شرائط ہیں یا اس کے وجوب کی بشرطیکہ اس کی قدرت پائی جائے۔اگر قدرت نہ ہو تو اس صورت میں خروج کرنا جائز نہیں ہے۔کیونکہ یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والی بات ہے اور ایسے حالات میں خروج سے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية