الأذكار للأمور العارضة
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: "ہوا اللہ کی رحمت ہے۔ یہ رحمت لے کر آتی ہے اور (بسا اوقات) عذاب لاتی ہے۔ لہٰذا جب تم اسے دیکھو تو اسے برا بھلا مت کہو اور اللہ سے اس کی بھلائی کا سوال کرو اور اس کی برائی سے پناہ مانگو۔"  
عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: « الرِّيحُ من رَوْحِ الله، تأتي بالرَّحمة، وتأتي بالعَذَاب، فإذا رَأَيْتُمُوهَا فَلاَ تَسُبُّوهَا، وسَلُوا الله خَيرها، واسْتَعِيذُوا بالله من شرِّها».

شرح الحديث :


حدیث کا مفہوم:" الرِّيحُ من رَوْحِ الله " یعنی ہوا اللہ کی اپنے بندوں کے ساتھ رحمت ہے۔ "تأتي بالرَّحمة وتأتي بالعَذَاب" یعنی اللہ تعالی ہواؤں کو اپنے بندوں کے لیے از راہِ رحمت بھیجتا ہے، چنانچہ اس کے سبب لوگوں کو خیر وبرکت حاصل ہوتی ہے جیساکہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے: ( وأرسلنا الرياح لواقح ) ترجمہ: اور ہم بھیجتے ہیں بوجھل ہوائیں۔ اسی طرح اللہ کا یہ فرمان: ( الله الذي يرسل الرياح فتثير سحابا فيبسطه في السماء كيف يشاء ويجعله كسفا فترى الودق يخرج من خلاله ) ترجمہ: اللہ تعالیٰ ہوائیں چلاتا ہے وه ابر کو اٹھاتی ہیں پھر اللہ تعالیٰ اپنی منشا کے مطابق اسے آسمان میں پھیلا دیتا ہے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے پھر آپ دیکھتے ہیں کہ اس کےاندر سے قطرے نکلتے ہیں۔ نیز اللہ کا یہ فرمان: ( وهو الذي يرسل الرياح بشرا بين يدي رحمته حتى إذا أقلت سحابا ثقالا سقناه لبلد ميت فأنزلنا به الماء )الآية۔ ترجمہ: اور وه ایسا ہے کہ اپنی باران رحمت سے پہلے ہواؤں کو بھیجتا ہے کہ وه خوش کر دیتی ہیں، یہاں تک کہ جب وه ہوائیں بھاری بادلوں کو اٹھا لیتی ہیں، تو ہم اس بادل کو کسی خشک سرزمین کی طرف ہانک لے جاتے ہیں، پھر اس بادل سے پانی برساتے ہیں۔ اور کبھی یہ ہوائیں عذاب لے کر آتی ہیں جیساکہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے: (فأرسلنا عليهم ريحا صرصرا في أيام نحسات لنذيقهم عذاب الخزي في الحياة الدنيا ) ترجمہ: بالآخر ہم نے ان پر ایک تیز و تند آندھی منحوس دنوں میں بھیج دی کہ انہیں دنیاوی زندگی میں ذلت کے عذاب کامزه چکھا دیں۔ اور فرمایا: (إنا أرسلنا عليهم ريحا صرصرا في يوم نحس مستمر تنزع الناس كأنهم أعجاز نخل منقعر) ترجمہ: ہم نے ان پر تیز وتند مسلسل چلنے والی ہوا، ایک پیہم منحوس دن میں بھیج دی، جو لوگوں کو اٹھا اٹھا کر دے پٹختی تھی، گویا کہ وه جڑ سے کٹے ہوئے کھجور کے تنے ہیں۔ اور فرمایا: ( قالوا هذا عارض ممطرنا بل هو ما استعجلتم به ريح فيها عذاب أليم ) ترجمہ: کہنے لگے یہ ابر ہم پر برسنے واﻻ ہے، (نہیں) بلکہ دراصل یہ ابر وه (عذاب) ہےجس کی تم جلدی کر رہے تھے "فإذا رَأَيْتُمُوهَا فَلاَ تَسُبُّوهَا " یعنی مومن کے لئے جائز نہیں کہ وہ ہوا کو برا بھلا کہے کیونکہ یہ تو اللہ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق اور اس کے حکم کی پابند ہے اور کسی شے میں بذات خود اس کی کوئی تاثیر نہیں۔ اللہ عز وجل کے حکم کے بغیر یہ نہ کوئی نفع دیتی ہے اور نہ کوئی نقصان۔ چنانچہ اسے برا بھلا کہنا اس کے خالق و مدبر کو برا بھلا کہنے کے مترادف ہوگا جو کہ اللہ سبحانہ و تعالی ہے۔ "وسَلُوا الله خَيرها، واسْتَعِيذُوا بالله من شرِّها‘‘ ہوا کو برا بھلا کہنے سے منع کرنے کے بعد نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا کہ جب ہوا چلے تو اس وقت وہ اللہ تعالی سے اس کے خیر کو طلب کریں اور اس کے شر سے اس کی پناہ مانگیں۔ مراد یہ کہ اللہ سے دعا کریں کہ وہ انہیں اس خیر سے نوازے جو اس میں پنہاں ہے اور اس شر کو ان سے دور کردے جو اس میں مضمر ہے۔ القول المفيد، شرح كتاب التوحيد لابن عثيمين(2/379) شرح رياض الصالحين لابن عثيمين(6/470) شرح كتاب التوحيد للحازمي، الیکٹرانک کاپی. شرح سنن أبي داود للعباد، الیکٹرانک کاپی.  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية