فضائل الأعمال الصالحة
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری توبہ قبول ہونے کا شکرانہ یہ ہے کہ میں اپنا مال، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے راستے میں دے دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر اپنے مال کا ایک حصہ اپنے پاس ہی باقی رکھو، تو تمھارے حق میں یہ بہتر ہوگا۔"  
عن كَعْب بن مالك -رضي الله عنه- قال: قلتُ: يا رسولَ الله، إن مِن تَوبتي أن أَنْخَلِعَ مِنْ مالي؛ صدقةً إلى الله وإلى رسولِه، فقال رسولُ الله -صلى الله عليه وسلم-: "أمسِكْ عليك بعضَ مالِكَ؛ فهو خيرٌ لكَ".

شرح الحديث :


کعب بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ، ان تین صحابہ میں سے ایک تھے، جو غزوۂ تبوک میں پیچھے رہ گئے اور پیچھے رہ جانے کی وجہ کسی طرح کا نفاق یا عذر نہیں تھا۔ جب نبی ﷺ کی اس غزوے سے واپسی ہوئی، تو آپ ﷺ نے ان کے ساتھ قطع تعلق فرمالیا اور اپنے صحابہ کو بھی ان سے قطع تعلق کرنے کی ہدایت فرمادی۔ یہ قطع تعلقی کا سلسلہ جاری رہا، تاآں کہ سورۂ توبہ نازل ہوئی اور انھیں اللہ تعالیٰ کی رضامندی نصیب ہوئی اور رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرام بھی ان سے راضی ہو گئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور توبے کی قبولیت سے کعب رضی اللہ عنہ اس قدر فرحاں و شادماں ہوئے کہ اپنے سارے مال کو اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی میں صدقہ کرنے کا عزم کرلیا، تاہم نبی ﷺ نے انھیں اس سے باز رہنے کی رہ نمائی کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے پاس کچھ مال رکھ لو۔ چوں کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں جب یہ بات آگئی کہ وہ اپنی نیت میں بالکل راست باز اور ان کی توبہ خالص ہے، تو اس نے ان کے گناہ بخش دیے اور ان کے ساتھ عفو و درگزر کا معاملہ فرمایا۔ ایسے میں وہ یہ صدقہ نہ بھی کرتے (تو کوئی فرق نہیں پڑتا)، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیاده کا مکلف نہیں بناتا۔ پھر انھوں نے اللہ کی رضا وخوش نودی سے خوش ہوکر اپنا کچھ مال صدقہ کردیا؛ تاکہ اپنے پروردگار کے پاس اجر و ثواب کے ذخائر کا ذخیرہ ہو اور کچھ مال اپنے پاس رکھ چھوڑا؛ تاکہ اپنے مصالح جیسے خود اپنے اور اپنے اہل و عیال کے واجب نفقات پر خرچ کر سکیں۔ اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية