الأخلاق الحميدة
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے رحمت کے سو حصے کیے، ان میں سے ننانوے حصے اپنے پاس روک لیے اور ایک حصہ زمین میں اتارا۔ اسی ایک حصے کی وجہ سے تمام مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک جانور بھی اپنا کھر اپنے بچے سے ہٹالیتا ہے کہ کہیں اسے تکلیف نہ پہنچے۔‘‘ ایک اور روایت میں ہے:’’اللہ تعالیٰ کے پاس سو رحمتیں ہیں۔ اس نے ان میں سے ایک رحمت جنوں، انسانوں، چوپایوں اور کیڑے مکوڑوں کے درمیان اتاری ہے۔ اسی ایک حصۂ رحمت کی وجہ سے وہ ایک دوسرے پر نرمی کرتے اور رحم سے پیش آتے ہیں اور اسی کی وجہ سے جنگلی جانور اپنے بچے پر شفقت کرتا ہے۔ جب کہ اللہ نے ننانوے رحمتیں پیچھے رکھ چھوڑی ہیں جن کے ذريعہ وہ قیامت کے دن اپنے بندوں پررحم کرے گا۔‘‘ اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “بے شک اللہ تعالیٰ کے پاس سو رحمتیں ہیں۔ انھی میں سے ایک وہ رحمت ہے جس کی وجہ سے مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے جب کہ ننانوے رحمتیں قیامت کے دن کے لیے (محفوظ) ہیں۔‘‘ ایک اور روایت میں ہے کہ: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے جس دن آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا، سو رحمتیں پیدا کیں۔ ہر رحمت اتنی ہے جتنی آسمان و زمین کے مابین مسافت ہے۔ پھر ان میں سے ایک رحمت کو اس نے زمین میں رکھ دیا، اسی کی وجہ سے ماں اپنے بچے پر اور جنگلی جانور اور پرندے ایک دوسرے پر شفقت کرتے ہیں۔ جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کو اس (دنیوی) رحمت کے ساتھ ملا کر مکمل فرمائے گا۔”  
عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «جَعَلَ اللهُ الرحمةَ مائة جُزْءٍ، فَأَمْسَكَ عِنْدَهُ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ، وأَنْزَلَ في الأَرْضِ جُزْءًا وَاحِدًا، فَمِنْ ذَلِكَ الجُزْءِ يَتَرَاحَمُ الخَلَائِقُ، حتى تَرْفَعَ الدَّابَّةُ حَافِرَهَا عَنْ وَلَدِهَا خَشْيَةَ أَنْ تُصِيبَهُ». وفي رواية «إِنَّ للهِ تعالى مئةُ رحمةٍ، أَنْزَلَ منها رحمةً واحدةً بَيْنَ الجِنِّ والإنسِ والبَهَائِمِ والهَوَامِّ، فَبِهَا يَتَعَاطَفُونَ، وبها يَتَرَاحَمُونَ، وبِهَا تَعْطِفُ الوَحْشُ على وَلَدِهَا، وأَخَّرَ اللهُ تعالى تِسْعًا وتِسْعِينَ رحمةً يَرْحَمُ بِهَا عِبَادَهُ يومَ القِيَامَةِ». وعن سلمان الفارسي -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إِنَّ للهِ تعالى مئةُ رحمةٍ فمنها رحمةٌ يَتَرَاحَمُ بها الخَلْقُ بَيْنَهُمْ، وتِسْعٌ وتِسْعُونَ لِيَومِ القِيَامَةِ». وفي رواية: «إِنَّ اللهَ تَعَالَى خَلَقَ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ والأَرْضَ مئةَ رحمةٍ كُلُّ رحمةٍ طِبَاقَ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إلى الأَرْضِ، فَجَعَلَ منها في الأَرْضِ رَحْمَةً فبها تَعْطِفُ الوَالِدَةُ على وَلَدِهَا، والوَحْشُ والطَّيْرُ بَعْضُهَا عَلَى بَعْضٍ، فإذا كانَ يومُ القيامةِ أَكْمَلَهَا بِهَذِه الرحمةِ».

شرح الحديث :


اللہ تبارک و تعالیٰ نے رحمت کے سو حصے بنائے اور ان میں سے ایک حصہ دنیا میں نازل کیا اور بقیہ ننانوے حصے قیامت کے دن کے لیے اپنے پاس روک رکھا۔ اسی ایک رحمت ہی کی وجہ سے تمام مخلوقات یعنی جن و انس، چوپائے اور کیڑے مکوڑے آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں یہاں تک کہ گھوڑی جو پھرتیلے پن اور ادھر ادھر منتقل ہونے میں مشہور ہے وہ بھی احتیاط کرتی ہے کہ کہیں اپنے بچے کو گزند نہ پہنچا دے چنانچہ اسے نقصان پہنچنے کے اندیشے کی وجہ سے اپنا کھر اوپر اٹھا لیتی ہے۔ اسی رحمت کی وجہ سے جنگلی جانور اپنے بچے پر شفقت کرتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ننانوے رحمتیں موخر کر رکھی ہیں تاکہ ان کے ذریعہ قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحم فرمائے۔ دوسری حدیث: اللہ تبارک و تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخليق کے دن ہی سو رحمتوں کو پيدا فرمایا۔ ہر رحمت اتنی ہے کہ اس سے آسمان اور زمین کے مابین کی جگہ بھر جائے۔ اللہ تعالی نے ان میں سے ایک رحمت کو دنیا میں رکھا جس کی وجہ سے ماں اپنے بچے پر اور حیوانات و پرندے باہم ایک دوسرے پر شفقت کرتے ہیں۔ پھر روزِ قیامت اللہ رب العالمين (اس کے ساتھ) ننانوے رحمتیں ملا کر اسے پورا فرما دے گا۔ جب اس ایک رحمت کی بدولت انسان کو اس تلخیوں بھری دنیا میں اللہ عز و جل کی اتنی عظیم الشان نعمتیں ملتی رہتی ہیں تو پھر سو رحمتوں کے ساتھ آخرت کے بارے میں آپ کا گیا گمان ہے جو جائے قرار و جزا ہے۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية