البحث

عبارات مقترحة:

الجواد

كلمة (الجواد) في اللغة صفة مشبهة على وزن (فَعال) وهو الكريم...

الكريم

كلمة (الكريم) في اللغة صفة مشبهة على وزن (فعيل)، وتعني: كثير...

الظاهر

هو اسمُ فاعل من (الظهور)، وهو اسمٌ ذاتي من أسماء الربِّ تبارك...

جائز اور نا جائز وسیلہ

الأردية - اردو

المؤلف عبد العزيز بن عبد الله الجهني ، شفیق الرحمن ضیاء اللہ مدنی
القسم كتب وأبحاث
النوع نصي
اللغة الأردية - اردو
المفردات العبادة - التوسل
زیرنظرکتابچہ میں اہل جاہلیت کی بعض شرکیہ امور کا تذکرہ کرکے ان سے خبردار کیا گیا ہے،جیسے مُردوں سے شفاعت طلب کرنا،ان کا وسیلہ پکڑنا،ان کے لئے عبادت کرنا وغیرہ۔اسی طرح وسیلہ کی جائز(شرعی) وناجائز(غیرشرعی) صورتوں کو بیان کرکے اس سلسلہ میں بعض باطل پرستوں کے شبہات کا بھی ازالہ کیا گیا ہے۔نہایت ہی مفید کتابچہ ہے ضرور مستفید ہوں۔

التفاصيل

جائز اور ناجائز وسیلہ عرضِ مُترجم مقدِّمہ رسولﷺ کی بعثت کے وقت عربوں کی دینی حالت اور آپﷺ کا ان پر اعتراض شفاعت بر حق ہے پیارےعقل مند قارئین: ((دورِ جاہلیت کے ان لوگوں کےدرمیان،اور ہمارے زمانے میں فوت شدہ اولیاء و صالحین اور غائب لوگوں کو پکارنے والوں کے درمیان کیا فرق ہے ؟)) رسولﷺ کی وفات کے بعدصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جائزتوسّل کو کیسےعملی جامہ پہنایا؟ اللہ کےماسوا اولیاء کو پکارنے کےشرک اکبرہونے کی دلیلیں جائز وسیلہ ہمیں صرف رسولﷺ ہی کی اقتدا وپیروی کرنی چاہیے غیراللہ کو پکارنے سے سارے اعمال برباد ہوجاتے ہیں وسائلِ شرک باطل پرستوں کے شبہات اوران کاازالہ  جائز اور ناجائز وسیلہ[ الأردية – اُردوUrdu – ]تالیف: شیخ ؍عبد العزیز بن عبد اللہ الجہنی-حفظہ اللہ-—™ترجمہ:شفیق الرّحمن ضیاء اللہ مدنیمراجعہ: عزیز الرّحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ -عطاء الرّحمن ضیاء اللہناشر:دفترتعاون برائے دعوت وارشاد،ربوہ،ریاضمملکتِ سعودی عرب عرضِ مُترجمزیرنظر رسالہ جائز (شرعی)وناجائز(غیرشرعی) وسیلہ کے بیان پر مشتمل ہے، جسے شیخ عبدالعزیز بن عبد اللہ الجہنی ۔حفظہ اللہ۔ نے کتاب وسنت کی روشنی میں سلف صالحین کی فہم کے مطابق ترتیب دیا ہے،اسلام ہاؤس ڈاٹ کام کے شعبہ ٔ ترجمہ وتالیف نے افادۂ عام کی خاطراسےاردو قالَب میں ڈھالاہے،حتی الامکان مؤلف کے مقصود کوسامنے رکھتے ہوئے ترجمہ کو درست ومعیاری بنانےاوراسے آسان وشُستہ اسلوب میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ قارئین کرام کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہ ہو، مگرکمال صرف اللہ عزوجل کی ذات کا خاصہ ہے، لہذا کسی مقام پر اگر کوئی سقم نظر آئے تو ازراہ کرم خاکسار کو مطلع فرمائیں تاکہ آئندہ اس کی اصلاح کی جاسکے۔ ربّ کریم سے دعا ہے کہ اس کتاب کو لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنائے،اس کے نفع کو عام کرے،والدین اور جملہ اساتذۂ کرام کے لئے نیک نامی اورمغفر ت کا ذریعہ بنائے،اورکتاب کے مؤلّف،مترجم،مراجع،ناشر،اور تمام معاونین کی خدمات کو قبول کرکے ان سب کے حق میں صدقہ ٔجاریہ بنائے۔آمین وصلّى الله على نبيّنا محمّد وعلى آله وصحبه وسلّم.بسم اللہ الرحمن الرحیم مقدِّمہتمام تعریفیں صرف اللہ رب العالمین کے لئے ہیں، اور درود وسلام ہو اللہ کے رسول،آپ کے آل اور تمام اصحاب پر۔حمد وصلاۃ کے بعد:رسول پاکﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرنے والا اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ آپﷺ ایک ایسی قوم میں بھیجے گئے تھے جہاں کے لوگ فوت شدہ صالحین کی محبّت میں اس قدر غلوا ور افراط سے کام لیتے تھے کہ اس غلو نے انہیں ان کے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دین سے باہر نکال دیا تھا،اور یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی ملّت : لوگوں کو اکیلے اللہ کی عبادت کرنےکی طرف دعوت دیناتھی،اور یہ بھی معلوم ہے کہ عبادت کی کئی قسمیں ہیں انہیں میں سے بعض یہ ہیں: ایمان،اسلام،احسان،صلاۃ(نماز)،زکاۃاور بقیہ ارکانِ اسلام، دُعا، نذر ونیاز، استعانہ (مدد طلبی)،استعاذہ(پناہ طلبی)،خوف ورجاء،رغبت ورہبت وغیرہ۔ رسولﷺ کی بعثت کے وقت عربوں کی دینی حالت اور آپﷺ کا ان پر اعتراضاہل جاہلیت مذکورہ بالا عبادات کی بعض قسموں کو اللہ عزّوجل کے علاوہ کی طرف اس اعتقاد سے پھیرتے تھے کہ ان اولیاء کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک کافی بلند مقام ورُتبہ ہے،اور یہ اولیاء ان لوگوں کی ضروریات کو اللہ عزّوجل تک پہنچاتے ہیں۔ مثال کے طور پر لات(بُت)ہی کو لے لیجئےجس کو شہر طائف میں اللہ عزّوجل کے علاوہ پُکارا جاتا تھا،جو مرنے سے پہلے لوگوں کے لئے اور خاص کرحاجیوں کے لئے بہت نفع پہنچانے والا آدمی تھا،یہ حاجیوں کے لئے ستّو (عربوں کے یہاں ایک قسم کا کھانا ہے) تیاّر کرکے ان کی خدمت میں پیش کیا کرتا تھا،لیکن جب اس کا انتقال ہوگیا تو اس کا معاملہ کسی بھی ایسے آدمی کی طرح ہوگیا جس کے بارے میں لوگ خیر وبھلائی اور صلاح وپاکیزگی کا اعتقاد رکھتے ہیں،چنانچہ اس کےزمانہ کے لوگوں کو اس پر کافی افسوس ہوا اور اس کی قبر پر آمدورفت شروع کردئیے،پھر اس پر ایک عمارت تیار کی اور پھر اس کے ذریعہ وسیلہ پکڑنے لگے،اور اس کی قبر کا طواف کرنا شروع کردئیے،اور اس سے اپنی حاجات کی تکمیل اور پریشانیوں کے ازالہ کا سوال کرنے لگے،جس طرح عُزّی اور منات (نامی بتوں) سے لوگ اپنی مرادیں طلب کرتے تھے۔جیساکہ اللہ عزّوجلّ نے فرمایا ہے:﴿أَفَرَ‌أَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّىٰ وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَ‌ىٰ أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْأُنثَىٰ تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَىٰ إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللَّـهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنفُسُ ۖ وَلَقَدْ جَاءَهُم مِّن رَّ‌بِّهِمُ الْهُدَىٰ﴾ [النجم:19-23]’’ کیا تم نے لات اور عُزّیٰ کو دیکھا, اور منات تیسرے پچھلے کو؟ کیا تمہارے لیے لڑکے اور اللہ کے لیے لڑکیاں ہیں؟ یہ تو اب بڑی بےانصافی کی تقسیم ہے دراصل یہ صرف نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے ان کے رکھ لیے ہیں اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں اتاری۔ یہ لوگ تو صرف اٹکل کے اور اپنی نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ اور یقیناً ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آ چکی ہے‘‘۔سورہ نجم:۱۹-23]اور ساتھ ہی وہ لوگ یہ بھی جانتے تھے کہ جنہیں یہ (اللہ کے علاوہ)پکار رہے ہیں وہ اس کائنات کی کسی بھی چیز کے خالق نہیں ہیں،اور نہ ہی وہ رزق دینے والے ہیں او ر نہ ہی موت وحیات کے مالک ہیں،بلکہ وہ کسی بھی معاملہ میں کچھ اختیار نہیں رکھتے۔اللہ عزّوجل نےمشرکین کے بارے میں فرمایاہے:﴿قُلْ مَن يَرْ‌زُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْ‌ضِ أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَن يُخْرِ‌جُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِ‌جُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَن يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ اللَّـهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴾ [يونس:31]’’آپ کہیے کہ وه کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے یا وه کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وه کون ہے جو زنده کو مرده سے نکالتا ہے اور مرده کو زنده سے نکالتا ہے اور وه کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے؟ ضرور وه یہی کہیں گے کہ اللہ, تو ان سے کہیے کہ پھر کیوں نہیں ڈرتے‘‘۔ [سورہ یونس:۳۱]یعنی: جب تم جانتے ہو کہ ان چیزوں کا فاعل اللہ ہی ہے، تو تم اللہ سے کیوں نہیں ڈرتےکہ تنہا صرف اسی کو پکارتے، جس طرح کہ اسےتنہا خالق مانتے ہو؟یہیں سے ہم اس بات کا ادراک کرسکتے ہیں کہ یہ کفار ان صالحین سے صرف اس بات کی امید رکھتے تھے کہ وہ انہیں اللہ عزّوجل سے قریب کردیں ، ان کے بارے میں ان کا یہ گمان تھا کہ اللہ تعالیٰ ان فوت شدہ صالحین کی دعائیں قبول کرتا ہے ، چنانچہ ان سے فریادطلب کرنے والوں کی حاجات کو پوری کردیتا ہے۔ اور اس میں معبود برحق کی حددرجہ توہین وتنقیص ہے،اور اس کی وجہ یہ ہے کہ: رب تبارک وتعالیٰ انسانوں کی طرح نہیں ہے کہ وہ کسی وزیر یا مساعد و مددگاروغیرہ کا محتاج ہو، جیسا کہ انسانوں کا حال ہے کیونکہ وہ ہرچیز کا احاطہ نہیں کرسکتے۔یہیں سے ہمیں قرآنِ کریم کے ذریعہ اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ جس شخص نے اللہ کے علاوہ مُردوں وغیرہ کو ایسی چیز کے بارے میں پکارا جس پر صرف اللہ عزوجل ہی قدرت رکھتا ہے تو وہ مشرک اور اللہ کے ساتھ کفر کرنے والا ہے،اللہ عزّوجل ان کے شبہہ کو بے نقاب کرتے ہوئے فرماتا ہے:﴿إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ ۖ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴾[الأعراف:194]’’واقعی تم اللہ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وه بھی تم ہی جیسے بندے ہیں سو تم ان کو پکارو پھر ان کو چاہئے کہ تمہارا کہنا کر دیں اگر تم سچے ہو‘‘[سورہ اعراف:۱۹۴]اور اللہ تعالیٰ نےاس بات کی صراحت کردی ہے کہ وہ لوگ پکارنے والے کی پکار نہیں سنتے، اور اگر بالفرض اوربطورِحجّت مان لیا جائے کہ انہوں نے سن بھی لیا تو وہ ہرگز ان کا جواب نہیں دیں گے،اوربروز قیامت ان کے اس فعل کا انکار کردیں گے،اور ان کے اس فعل کو قرآنی آیت کے نص کے ذریعہ شرک کانام دیا گیا ہے،اور وہ سورہ فاطر میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:﴿إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُ‌ونَ بِشِرْ‌كِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ‌﴾[الفاطر:14]’’اگر تم انہیں پکارو تو وه تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر (بالفرض) سن بھی لیں تو فریاد رسی نہیں کریں گے، بلکہ قیامت کے دن تمہارے اس شرک کا صاف انکار کرجائیں گے۔ اورآپ کو کوئی حق تعالیٰ جیسا خبردار خبریں نہ دے گا ‘‘[سورہ فاطر:۱۴]لہذامعلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کوچھوڑکرجن مُردوں کو بھی پکارا جائے وہ نہیں سنتے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ ﴾[النمل:80]’’ بیشک آپ مُردوں کو نہیں سنا سکتے ہیں۔‘‘[سورہ نمل:۸۰]نیز ارشاد فرمایا:﴿وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ‌﴾[الفاطر:22]’’ اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں۔‘‘ [سورہ فاطر:۲۲]اورنہ وہ (مُردے)غیب ہی جانتے ہیں؛ جب اللہ کےرسولﷺ غیب نہیں جانتے ہیں جیسا کہ سورۂ اعراف میں ہے:﴿قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّ‌ا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْ‌تُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾[الأعراف:188]’’آپ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذاتِ خاص کے لیے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا، مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا ہو اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سے منافع حاصل کر لیتا اور کوئی نقصان مجھ کو نہ پہنچتا میں تو محض ڈرانے والااور بشارت دینے والاہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں۔ ‘‘ [سورہ ٔاعراف:۱۸۸]توآپﷺ سے کم تر درجے کے لوگوں میں سے کون غیب جان سکتا ہے؟ چنانچہ اس کےلیےیہ جاننا ممکن نہیں کہ فلاں شخص نےاس کی قبر پرآکر سوال کیاہے،بلکہ درحقیقت یہ لوگ ایک معدوم کو پکار تے ہیں۔اسی طرح ان (مُردوں)سے اللہ کے پاس ا ن کےبلند رُتبہ ہونے کی وجہ سے شفاعت طلب کرنا بھی صحیح نہیں ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کفار عرب کو مُردوں سے (شفاعت )طلب کرنے کی وجہ سے کافر قراردیا ہے ان کے اس قول کے باوجود کہ:﴿مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّ‌بُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ﴾[الزمر:3]’’ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ (بزرگ) اللہ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرا دیں۔‘‘[سورہ زمر:۳]یعنی: ہم انہیں صرف اس لیے پکارتے ہیں،کیونکہ دعا (پکارنا) عبادت ہے۔جیساکہ عنقریب اس کا بیان آئےگا۔اوران سے شفاعت کی دعاکرنا بہت بڑی غلطی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:﴿مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ﴾[البقرة:255]’’ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے۔‘‘[سورہ بقرہ:۲۵۵] اور ارشاد الہی ہے: ﴿وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْ‌تَضَىٰ ﴾[الأنبياء:28]’’ وه کسی کی بھی سفارش نہیں کرتے بجز ان کے جن سے اللہ خوش ہو۔ ‘‘[سورہ انبیاء:۲۸]اوروہ(اللہ)سبحانہ وتعالیٰ مُردوں سے شفاعت طلب کرنے سے راضی نہیں ہوتا کیونکہ میت کے اندر کوئی زندگی اور قدرت نہیں ہوتی،تو معدوم سے شفاعت کیسے طلب کی جاسکتی ہے؟لہذا اسےصر ف اُسی سے طلب کیاجائے جو اس پر قادر ہے،اور وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات ہے۔ شفاعت بر حق ہےشفاعت بر حق اور ثابت ہے لہذا ہم مولائے کریم سے یہ سوال کرتے ہیں کہ وہ ہم کو اپنے لطف وکرم سے بروزِ قیامت نیک لوگوں کی شفاعت نصیب فرمائے، چاہےیہ شفاعت ہم میں سےجہنم کے حقدار ہونے والےلوگوں کے لئے ہو۔ ہم اس سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔یا جنت میں ہمارےدرجات کی بلندی وغیرہ کے لئے ہو، کیونکہ کوئی بھی شفاعت کرنے والااللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر شفاعت نہیں کرسکتا ، یہاں تک کہ گرچہ وہ مقرّب فرشتہ یا نبی مرسل ہی کیوں نہ ہوں،توپھران سے کم تر لوگوں کاکیاحال ہوگا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَكَم مِّن مَّلَكٍ فِي السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِن بَعْدِ أَن يَأْذَنَ اللَّـهُ لِمَن يَشَاءُ وَيَرْ‌ضَىٰ﴾[النجم:26]’’اور بہت سے فرشتے آسمانوں میں ہیں جن کی سفارش کچھ بھی نفع نہیں دے سکتی مگر یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی خوشی اور اپنی چاہت سے جس کے لیے چاہے اجازت دے دے‘‘[سورہ نجم:۲۶]اوراللہ تعالیٰ فرماتا ہے:﴿مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ﴾ [البقرة:255]’’ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے۔‘‘[سورہ بقرہ:۲۵۵] اور ارشاد ہے: ﴿وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْ‌تَضَىٰ ﴾[الأنبياء:28]’’ وه کسی کی بھی سفارش نہیں کرتے بجز ان کے جن سے اللہ خوش ہو ‘‘[سورہ انبیاء:۲۸]اس بنیاد پر شفاعت کی دوقسمیں ہیں:پہلی قسم: ثابت شفاعت:اور یہ صرف اخلاص والوں کے لئے خاص ہے، اوریہ صرف اللہ سے طلب کی جاتی ہے،کیونکہ جیسا کہ ابھی گذرا ہے کہ کوئی بھی شخص کسی کے لئے اللہ تبارک وتعالیٰ کی اجازت اور اس کی رضامندی کے بغیر شفاعت نہیں کرسکتا،اوریہ کہ جس کے لیے شفاعت کی جارہی ہے اللہ اس سے راضی ہو،پس جس شخص کے لیے شفاعت کی جارہی ہے اگر وہ توحید پرست ہوگا تو اللہ کے حکم سے شفاعت کرنے والوں کی شفاعت اسے فائدہ دے گی، چاہے وہ شفاعت نبیوں یارسولوں کی طرف سے ہو یاصدیقین یا اولیا ء وصالحین کی ہو۔دوسری قسم: مسترد شفاعت:اوریہ وہ شفاعت ہے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے علاوہ سے طلب کی جاتی ہے جیسے کہ کوئی شخص مُردوں یا غائب لوگوں یا جنّات سے شفاعت طلب کرے۔ کیونکہ یہ(شفاعت)ایسے لوگوں سےطلب کی جارہی ہے جو اس کےمالک نہیں۔ چنانچہ مردہ کے بارے میں قرآن میں آیا ہے ۔جیسا کہ ابھی گذرا ۔ کہ وہ نہیں سنتا،اور غائب شخص غیب کو نہیں جانتا ،اسی طرح فوت شدہ اولیاء و صالحین یہ نہیں جانتے کہ ان کی قبروں پر کوئی فریادطلب کرنے والا، یامدد چاہنے والا، یا ان سے سفارش وغیرہ طلب کرنے والا آیا ہے۔بنابریں کافر اور مشرک کے لیے شفاعت نہیں کی جائے گی جیسے : غیراللہ کو پکارنے والا ،یا غیر اللہ کے لئے ذبح کرنے والا، یا غیراللہ کے لئے نذرونیاز دینے والا۔اوربروزِ قیامت ان لوگوں سے شفاعت طلب کی جائے گی جن کو اللہ تعالیٰ انبیاء،اولیاءاورصالحین میں سےشفاعت کرنےکی اجازت دے گا۔اس کی دلیل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:﴿يَوْمَئِذٍ لَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّ‌حْمَـٰنُ وَرَ‌ضِيَ لَهُ قَوْلًا﴾[طه:109]’’ اس دن سفارش کچھ کام نہیں آئے گی مگر جسے رحمنٰ حکم دے اور اس کی بات کو پسند فرمائے۔ ‘‘ [سورہ طہ:۱۰۹]زندہ اولیاء اورصالحین سے دعا کی فرمائش کرنا جائز ہے جیسا کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین بارش کی ضرورت یا دشمن پر غلبہ وغیرہ حاصل کرنے کے لئے نبی کریمﷺسے دعا کا سوال کیا کرتے تھے۔ پیارےعقل مند قارئین:اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُ‌ونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ﴾[النحل:20-21]  ’’اور جن جن کو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہیں وه کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے، بلکہ وه خود پیدا کیے ہوئے ہیں مردے ہیں زنده نہیں، انہیں تو یہ بھی شعور نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے‘‘ـ[سورہ نحل:۲۰۔۲۱]یعنی : یہ اولیاء اور صالحین مردے ہیں زندہ نہیں، تو ایسی صورت میں یہ لوگ مردوں سے اس چیز کا سوال کرنے والے ہوئے جن پر وہ قدرت نہیں رکھتے،برخلاف اس شخص کے جو زندہ اور نیک ہو، تو اس سے اس چیز کے بارے میں سوال کرنا جائزہے جس پر وہ قدرت رکھتا ہے، مثال کے طور پر آپ اس سے کہو: اے شیخ محترم! آپ میرے لئے اللہ تعالیٰ سےفلاں فلاں چیز کا سوال کردیجئے،یا اے فلاں شخص میرا قرض چکانے یا میرے سامان کو اٹھاکرمیری سواری پررکھنے میں میری مدد کر،اور اس طرح سے دیگرامورجن پر اسے قدرت حاصل ہو۔دورجاہلیت کےلوگوں -جن سے رسول اکرمﷺ نے اللہ کے حکم سے قتال کیا تھا -کے حالات کا مختصر جائزہ پیش کرنے کے بعد خود بخود یہ سوال اٹھتا ہے یا اسے وہ صورت حال اٹھارہاہےجس میں بہت سےمسلمان زندگی بسرکر رہے ہیں، اوروہ سوال یہ ہےکہ: ((دورِ جاہلیت کے ان لوگوں کےدرمیان،اور ہمارے زمانے میں فوت شدہ اولیاء و صالحین اور غائب لوگوں کو پکارنے والوں کے درمیان کیا فرق ہے ؟))اس کاجواب یہ ہے کہ: ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، اور اس کی چند وجہیں ہیں:اوّل:وہ(دورِ جاہلیت کے)لوگ اس بات کا اعتقاد نہیں رکھتے تھے کہ یہ (صالحین) اللہ کی ملکیت میں سے کسی چیز کے مالک ہیں، اسی طرح ہمارے زمانے کے وہ لوگ جو اولیاء اور صالحین کی قبروں پرجاتے ہیں اور انہیں پکارتے ہیں وہ بعینہ یہی اعتقاد حسین بن علی رضی اللہ عنہما،عبد القادر جیلانی اور سید بدوی رحمہمااللہ اور دیگر صالحین کے بارے میں رکھتے ہیں۔دوم: دورِ جاہلیت کےلوگ اس بات کا اعتقاد رکھتے تھے کہ ان فو ت شدہ صالحین کا اللہ کے ہاں مقام ومرتبہ ہے ،چنانچہ وہ ان کی ضروریات کو اللہ تک پہنچاتے ہیں، اس بات کا اعتقاد رکھتے ہوئے کہ یہ لوگ انہیں اللہ سے قریب کردیں گے،حالانکہ میرے رب تبارک وتعالیٰ نے ان کےاس قول: ﴿هَـٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّـهِ﴾[يونس:18]’’یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں‘‘[سورہ یونس:۱۸] اور:﴿مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّ‌بُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ﴾[الزمر:3]  ’’ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ (بزرگ) اللہ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرا دیں‘‘[سورہ زمر:۳] کے باوجود انہیں کافر قرار دیا۔اسی طرح ہمارے زمانے میں قبر وں کا چکّر لگانے والےحضرات بھی سرداروں اور ولیوں کے بارے میں یہی اعتقاد رکھتے ہیں۔اور دعا عبادت ہے،کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے دعا کو عبادت کا نام دیا ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَقَالَ رَ‌بُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُ‌ونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِ‌ينَ﴾[ الغافر:60]’’اور تمہارے رب کا فرمان (سرزد ہوچکا ہے) کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خودسَری کرتے ہیں وه عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے‘‘[سورہ غافر:۶۰]چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دعا کی تفسیر عبادت سے کی ہے، بلکہ رسول ﷺ کے فرمان میں صریح طور سے وارد ہوا ہے،جیساکہ امام احمد، ابوداود،ترمذی،نسائی،ابن ماجہ،ابن ابی حاتم ،ابن جریر،ابن حبان اور حاکم (رحمہم اللہ) نے روایت کیا ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا: (إنَّ الدّعاءَ هُوَ العِبادة ([1]) )’’بے شک دعا ہی عبادت ہے‘‘۔ اور امام احمد رحمہ اللہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث لائے ہیں جس میں رسولﷺ کا فرمان ہے: (مَنْ لَمْ يَدْعُ اللَّهَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ ([2]) ) ’’جو شخص اللہ عزّوجلّ سے دعا نہیں کرتا تووہ اس سے ناراض ہوتا ہے‘‘۔ رسولﷺ کی وفات کے بعدصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جائزتوسّل کو کیسےعملی جامہ پہنایا؟ بے شک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس معنیٰ ومفہوم کو سمجھ لیا تھا اوریہ کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو پکارے گا تو وہ شرک اور کفر کرنے والا ہوگا، گرچہ وہ کسی مقرّب فرشتہ یا نبی مرسل کو ہی کیوں نہ پکارے،اور وہ(صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) سخت سے سخت حالات میں بھی ایسا نہیں کرتے تھے۔اس سلسلے میں ہم رسولﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرام کی زندگی سے ایک مثال (نمونہ) پیش کرتے ہیں ،واقعہ یہ ہے کہ جب لوگ عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں قحط سالی کے شکار ہوگئے، تو عمررضی اللہ عنہ نے رسولﷺ کے چچا عباس رضی اللہ عنہ سے مطالبہ کیا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لئے بارش کی دعا کردیں،یہاں تک کہ جب لوگ مصلی (نمازگاہ)پہنچے تو عمررضی اللہ نے کہا: (اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا([3]) فَاسْقِنَا،قَالَ: فَيُسْقَوْنَ([4]))’’ اے اللہ ! بے شک ہم تیرے نبی(ﷺ) کی دعا کے وسیلے سے بارش طلب کیا کرتے تھے، توتوہمیں سیراب کرتا تھا، اب (وفات رسول ﷺ کے بعد)ہم آپ کے چچا کی دعا کے وسیلے سے بارش طلب کرتے ہیں، تو توہم پر بارش نازل فرما۔(راوی حدیث حضرت انس رضی اللہ عنہ ) فرماتے ہیں کہ پھر بارش نازل ہوتی تھی‘‘۔چنانچہ عباس رضی اللہ عنہ دعا کرنے لگے اور لوگ ان کے پیچھے آمین کہتےتھے ۔تورسولﷺ کے ان صحابہ کرام نے ہمارے زمانے کے لوگوں کی طرح استغاثہ یا شفاعت کیوں نہیں طلب کیا؟حالانکہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ حلال وحرام کے جاننے والے تھے،کیونکہ یہی صحابہ کرام ہیں جنہوں نے آپﷺ کے پیچھے نماز پڑھی،آپ ﷺ کے ساتھ جنگ کیا، آپﷺ کے ساتھ حج ادا کیا، اور آپﷺ کی مسجد میں بیٹھ کر آپ کے خطبوں کو سماعت فرمایا اور آپ ﷺ کے آداب واخلاق سے اپنے آپ کو آراستہ کیا اور آپﷺ ہی سے تعلیم حاصل کیا۔اسی طرح کسی نبی یا ولی وغیرہ کی قبر کا ثواب کی نیت سے رختِ سفر باندھنا جائز نہیں ہے،کیونکہ یہ شرک تک پہنچانے والے وسائل وذرائع میں سے ہے،اور وسائل وذرائع کا وہی حکم ہوتا ہے جوغایات ومقاصد کا حکم ہوتا ہے۔ اسی لئے ہم پاتے ہیں کہ رسولﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے،چنانچہ آپ ﷺ کافرمان ہے: (لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ:المَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَسْجِدِي هَذَا ، وَالمَسْجِدِ الْأَقْصَى ([5]) )’’تین مسجدوں کے علاو ہ کی طرف(ثواب کی نیت سے) رختِ سفرباندھنا جائز نہیں :مسجد حرام،میری یہ مسجد(نبوی)،اور مسجد اقصیٰ۔‘‘اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی نیک آدمی کی قبریا کسی ولی کے مزار وغیرہ کی خاطرسفر کرنا درست نہیں ہے۔ہم نبیﷺ سے اپنی جان ومال ،اولاد،والدین اور بیوی سے زیادہ محبت کرتے ہیں، اسی طرح ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں،نیزنیک اولیاء سے بھی محبت کرتے ہیں، اوران لوگوں سے دوستی کرتے ہیں جو ان سے دوستی رکھتے ہیں اور ان لوگوں سے دشمنی کرتے ہیں جو ان سے دشمنی رکھتے ہیں،اورہم اس بات کو بھی جانتے ہیں کہ جس شخص نے کسی ولی سے عداوت رکھا تواللہ تعالیٰ نے ایسے شخص سے جنگ کا اعلان کیاہے... لیکن مجھےاپنے رب کی قسم کھا کربتائیں کہ:کیا ان لوگوں سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان کی اللہ کے علاوہ پوجا کریں، انہیں اللہ کےشریک بنالیں،ان کا وسیلہ پکڑیں، ان کی قبروں کا طواف کریں، ان کے لئے نذرانے پیش کریں اوران کے لئے ذبیحے پیش کریں؟یہیں سے ہمیں اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی بھی مخلوق سے ایسی چیز میں دعا کرنا جس پرصرف اللہ عزوجل ہی قدرت رکھتا ہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ساتھ شرک ہے،جیسے کہ ان لوگوں کا حال ہے جواولیاء وصالحین کی قبروں پر جاکر ان سےمختلف قسم کی ضروریات کا سوال کرتے ہیں،مثلا: اپنے مریضوں کی شفا یابی طلب کرنا،غائب شخص کے لوٹانے کا سوال کرنا، بانجھ عورت کے لئے اولاد طلب کرنا،گمشدہ چیزوں کی واپسی کا مطالبہ کرنا،اگرچہ وہ کہیں کہ ہم اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ ہرچیز اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے ہی ہے۔ کیوں کہ یہ بعینہ ۔جیسا کہ گذرچکا۔ دورِ جاہلیت کے لوگوں کا شرک ہے جن کے اندر رسول ﷺ کو مبعوث کیا گیا تھا، اور یہی شرک اکبرہے۔ اللہ کےماسوا اولیاء کو پکارنے کےشرک اکبرہونے کی دلیلیںارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّـهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّـهِ أَحَدًا﴾[الجن:18]’’اور یہ کہ مسجدیں صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہیں پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔‘‘[سورہ جن:۱۸]لفظ(أَحَدًا) نکرہ ہےاور نہی کے سیاق میں آیاہے جو عموم کا فائدہ دیتا ہے، یعنی : صرف اکیلے اللہ کو پکارا جائے،اوریہ کہ اس کاغیراللہ کو پکارنا شرک اکبر ہے جواس کےتمام اعمال کو برباد کردینے والا ہے،جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَقَدِمْنَا إِلَىٰ مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَّنثُورًا﴾ [الفرقان:23]’’اور انہوں نے جو جو اعمال کیے تھے ہم نےان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگنده ذروں کی طرح کردیا۔‘‘[سورہ فرقان:۲۳]اوراس کی دلیل سورۂ اعراف کے آخرمیں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے:﴿أَيُشْرِكُونَ مَا لَا يَخْلُقُ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ ﴾[الأعراف:191]’’کیا یہ ایسوں کو شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہ کر سکیں اور وه خود ہی پیدا کیےگئے ہوں۔‘‘[سورہ اعراف:۱۹۱]یہ اوراس کے بعد آیت نمبر"۱۹۷" تک کی آیات سب واضح نص ہیں کہ اللہ کے علاوہ ( کسی کو بھی )پکارنا شرک اکبر ہے جوملّت(اسلامیہ) سے خارج کرنے والا ہے۔ جائز وسیلہجائزوسیلہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات کا وسیلہ پکڑنا ہے جیسے تم کہو: اے اللہ!یااللہ کے ناموں میں سے کسی نام کا وسیلہ پکڑنا جیسے تم کہو: اے رحمن،اے رحیم،اے ہمیشہ زندہ رہنے والے،اے سب کو تھامنے اورقائم رکھنے والے! یا اس کی صفات کا وسیلہ پکڑنا جیسے تم کہو: اے اللہ! میں تیری رحمت کے ذریعہ تجھ سے فریاد طلب کرتا ہوں وغیرہ۔ یا کسی نیک زندہ حاضر(موجود) شخص کی دعا کا وسیلہ پکڑنا جیسےتم کہو : اے شیخ میرے لیے اللہ سے دعاکردیجئے وغیرہ،جیساکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسولﷺ سے بارش طلب کیا تھا۔اسی طرح عمل صالح کے ذریعہ وسیلہ اختیار کرنا،اس کی مثال : غاروالوں کاواقعہ ہے جن پرایک چٹان کھسک کرآنے سے غارکا منہ بند ہوگیا تھا۔ چنانچہ انہوں نےاپنے اپنے نیک اعمال کے ذریعہ اللہ سے سوال کیا ۔آخرکار اللہ عزوجل نے ان کی پریشانی کو دورکردیا اور وہ اس(غار) سےباہر نکل آئے۔لہذاآپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ: اے اللہ! میں تیرے نبیﷺسے محبت کرنے،اورتیرے لیے وحدانیت کوخاص کرنے،اورتیری اطاعت اور تیرے رسولﷺ کی اطاعت وپیروی کرنےکے وسیلہ سےتجھ سے فلاں فلا ں چیز کا سوال کرتا ہوں۔لیکن جہاں تک تمہارے اللہ رب العالمین سے نبی اورولی کے جاہ ومرتبہ کے واسطہ سے سوال کرنے یا ان میں سے کسی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھانے کی بات ہے تو یہ شرک تک پہنچانے والی بدعت ہے۔لہذا یہ حرام ہیں اگرچہ یہ شرک تک نہ پہنچیں، کیونکہ سوال کرنے والے نے(نبی اورولی کے جاہ کا واسطہ دے کر) صرف اللہ سے سوال کیا ہے، رہا تمہارا مردوں یا غائب لوگوں سے براہِ راست سوال کرنا تو یہی توشرکِ اکبر ہے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس بات کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی سے سوال کریں اور اس کے علاوہ کسی سے نہ سوال کریں۔اوراس نے اپنے سوال کرنے والے سے قبولیت کا وعدہ فرمایا ہے ۔گرچہ کچھ عرصہ بعدہی سہی ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ﴾ [البقرة:186]’’جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وه مجھے پکارے، قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہئے کہ وه میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں، یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے‘‘۔[سورہ بقرہ:۱۸۶]اور فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ﴾ [الغافر:60]’’ اور تمہارے رب کا فرمان (سرزد ہوچکا ہے) کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خودسری کرتے ہیں وه عنقریب ذلیل ہوکر جہنم میں جائیں گے۔‘‘[سورہ غافر:۶۰]اورہمیں یہ ہدایت دی کہ صرف اسی سے مدد طلب کریں، چنانچہ ہم ہررکعت میں کہتے ہیں: ﴿ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾[الفاتحة:5]’’ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں‘‘۔[سورہ فاتحہ:۵]اس کے باوجود بہت سارے نمازیوں کو دیکھو گے کہ جب ان کی کوئی مراد حاصل نہیں ہوتی،تو وہ لوگ قبروں اور مزاروں کا سہارالیتے ہیں،حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کی دعاکوفوری طور پرقبول کرنے پر قادر ہے،لیکن (اس میں تاخیر) بندوں کے لیے بطور ابتلا وآزمائش ہوتی ہے۔ کیونکہ اللہ کی حکمت اس بات کی متقاضی ہوتی ہے کہ بندوں کو آزمائش وامتحان میں ڈالا جائے،لہٰذا بسااوقات سائل کے مراد کی برآوری کومؤخر کردیاجاتاہے تاکہ اس کی صداقت کو جانا جا سکے، اگروہ واقعی سچا ہے تو شدائد کے وقت ثابت قدم رہتاہے،چنانچہ وہ اُسے صرف اللہ ہی پراتارتاہے ،وہ اللہ کے علاوہ سےسوال نہیں کرتا ہے گرچہ اس کے سرپر پہاڑ ہی گرپڑے یا اسے نگل لینے کے لیے زمین ہی پھٹ جائے ، اوریہ اللہ تعالیٰ پر مضبوط بھروسہ والا، مضبوط استعانت والااور اس پر بھروسہ رکھنے والا ہوتاہے ،لہٰذاوہ اس بات کےزیادہ لائق ہے کہ اس کی دعا قبول کی جائے۔اورکچھ دوسرے لوگ ہیں جن کا امتحان کے وقت ایمان کمزور پڑجاتا ہے، اوراس سے اتنا بھی نہیں ہوتاکہ رب تعالیٰ سے مدد طلب کرے اورشیطان اسکے لئے اپنی حاجت کو قبروں ومزاروں کے پاس لے جانے کو مزیّن کردیتا ہے تاکہ اس کو اس کے دین سے خارج کردے اور اس کے ذریعہ اس قسم کو پورا کرسکے جو اس نے اپنے آپ سے اس وقت لیا تھا جب کہا تھا: ﴿قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ﴾ [ص82-83]’’کہنے لگا پھر تو تیری عزت کی قسم! میں ان سب کو یقیناً بہکا دوں گا بجز تیرے ان بندوں کے جو چیده اور پسندیده ہوں۔ ‘‘[سورہ ص:۸۲۔۸۳]مخلوق کی اس ابتلاوآزمائش کامصداق اللہ تعالیٰ کایہ فرمان ہے:﴿الم أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّـهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ﴾ [العنكبوت:1-3]’’الم، کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایما ن لائے ہیں ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے؟ ان سے اگلوں کو بھی ہم نے خوب جانچا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ انہیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی معلوم کرلے گا جو جھوٹے ہیں‘‘[سورہ عنکبوت:۱۔۳]اوراللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُونَ﴾[التوبة:126]’’اور کیا ان کو نہیں دکھلائی دیتا کہ یہ لوگ ہر سال ایک بار یا دو بار کسی نہ کسی آفت میں پھنستے رہتے ہیں پھر بھی نہ توبہ کرتے اور نہ نصیحت قبول کرتے ہیں‘‘[سورہ توبہ:۱۲۶] ہمیں صرف رسولﷺ ہی کی اقتدا وپیروی کرنی چاہیےفتنوں میں سے ہے کہ آپ بعض قوموں،قبیلوں اور لوگوں کو ایسے پائیں گے کہ بسااوقات ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مال ودولت،جاہ وحشمت اور اقتدارو حکومت والے ہیں، یاوہ لوگوں کے نزدیک بظاہرعلم والے ہیں لیکن آپ ان کو وہی کام انجام دیتے پائیں گے جو قبروں کے پاس جاہل حضرات کرتے ہیں،اورجب لوگ ان سے اس عمل کے حکم کے بارے میں پوچھتے ہیں تولوگوں کو یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ یہ اس شرک میں سے نہیں ہے جس سے منع کیا گیا ہے،چنانچہ لوگ اس سلسلے میں ان کی اقتداکرلیتے ہیں،لیکن عقلمند شخص ایسا نہیں کرتا ،کیونکہ وہ کہتا ہےکہ:کیا میرے لیے وہ چیز کافی نہیں ہے جو رسولﷺ اوران کے پیروکاروں سلفِ صالحین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لئے کافی تھی؟جب رسولﷺ نے اپنی پوری زندگی میں غیراللہ کو نہیں پکارا،اورنہ ہی آپ ﷺ کے بارے میں یہ چیز معروف ہے، نہ حالت امن میں نہ ہی حالت جنگ میں،نہ حالتِ خوشی میں اور نہ ہی غم کی حالت میں،بلکہ آپﷺ کے بارے میں ثابت یہ ہے کہ جب آپﷺکو کوئی پریشانی لاحق ہوتی یا کوئی مصیبت پیش آتی تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے کہتے : (أرِحْنا بِها)([6]) ہمیں اس کے ذریعہ راحت پہنچاؤ،یعنی: نماز کے ذریعہ ۔اورہم ہرنماز میں کہتے ہیں : (إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ) یعنی: ’’ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں‘‘۔ [سورہ فاتحہ:۵]اوراللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے: ﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيرًا﴾[الأحزاب:21]’’یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمده نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے‘‘۔[سورہ احزاب:۲۱]اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ: تمہارے لیے تمہارے زمانے والے اسوہ ونمونہ ہیں۔آپ بنی اسرائیل کو دیکھیں جب ان لوگوں نے اپنے علماء اورعباد کی اللہ کی معصیت ونافرمانی میں اطاعت کی، تو اللہ نے ان کے بارے میں کیا فرمایا: ﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ﴾[التوبة:31]’’ ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے۔‘‘[سورہ توبہ:۳۱]چنانچہ جب عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے(جواسلام قبول کرنےسے پہلے عیسائی تھے) اسے سنا تو کہا: اے اللہ کے رسول! ہم ان کی عبادت نہیں کرتے تھے توآپﷺ نے ان سے فرمایا: (أَلَيسُوا يُحِلّونَ مَا حَرّم اللهُ فتُحِلّونَه وَيُحرِّمونَ مَا أحَلَّ اللهُ فتُحرِّمَونَه؟) ’’کیا ایسی بات نہیں ہےکہ وہ اللہ کی حرام کردہ چیزکو حلال ٹھہرادیتےتھے، توتم اسے حلال سمجھتےتھے،اور اللہ کی حلال کردہ چیزکو حرام ٹھہرادیتےتھے، تو تم اسے حرام سمجھتے تھے؟‘‘،تو انہوں نے کہا: ہاں، آپﷺ نے فرمایا: (فَتِلْكَ عِبَادَتُهُمْ) ’’یہی تو ان کی عبادت ہے‘‘۔ ([7])میرے پیارے دینی بھائی!جوشخص کہتا ہے کہ: عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں اور انہیں بھی کچھ الوہیت کا اختیار حاصل ہے جیسا کہ نصاریٰ کا اعتقاد ہے،اور جو شخص غیراللہ کو اس اعتقاد سے پکارتا ہے کہ وہ اس کی پکار کو سنتے ہیں تو ان دونوں کے درمیان کیا فرق ہے؟اوراسی کو نصاریٰ اس زمانے میں بعض اسلام کی طرف منسوب لوگوں کے خلاف دلیل وحجت بناتے ہیں،چنانچہ یہ لوگ اپنے اس فعل کی وجہ سے مسلمانوں میں شمار کیے جاتے ہیں حالانکہ وہ ان میں سے نہیں ہیں،کیونکہ وہ مردوں،ولیوں اور صالحین کا شرکیہ وبدعی وسیلہ پکڑتے ہیں۔ہمیں اس بات کا افسوس ہے کہ بعض نصرانی لوگ جو دورِجاہلیت کے ہمارے اجداد کی زندگی کا مطالعہ کرتےہیں، کہتے ہیں کہ یہ لوگ(موجودہ زمانے کے بعض نام نہاد مسلمان) اپنے عرب آباء و اجداد کی طرح بت پرستی کی طرف لوٹ گئے،حالانکہ یہ لوگ اس بات کو بھول بیٹھے یا بھلادئیے کہ وہ اللہ کی طرف اولاد کی نسبت کرکے اس سے بڑے (جرم) کا مرتکب ہوئے ہیں ،اوراللہ تعالیٰ کی ذات اس بات سے بہت بلند ہے کہ اس کا کوئی بیٹا یا باپ ہو۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:  ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾[الشورى:11]’’ اس جیسی کوئی چیز نہیں اوروه سننے اور دیکھنے والاہے‘‘۔[سورہ شوری:۱۱]اوراللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَـٰنُ وَلَدًا لَّقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَـٰنِ وَلَدًا وَمَا يَنبَغِي لِلرَّحْمَـٰنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا﴾[مريم:88-92]’’ان کا قول تو یہ ہے کہ اللہ رحمٰن نے بھی اولاد اختیار کی ہے یقیناً تم بہت بری اور بھاری چیز لائےہو قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزے ریزے ہو جائیں کہ وه رحمان کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے، شان رحمٰن کے لائق نہیں کہ وه اولاد رکھے‘‘۔[سورہ مریم:۸۸۔۹۲]کسی شاعرنے خوب اچھی ترجمانی کی ہے:جب ہم نے راہِ ہدایت سے کنارہ کشی اختیار کی تو ہم پرسزائیں نازل ہوئیںاورظلم وعدوان اورطغیان وسرکشی کے طوفانوں کا موج مارنے لگ گیا غیراللہ کو پکارنے سے سارے اعمال برباد ہوجاتے ہیںمیرےبھائیو!بلاشبہ غیراللہ کو پکارناعین گمراہی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّـهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ﴾[الأحقاف:5]’’اور اس سے بڑھ کر گمراه اور کون ہوگا؟ جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہ کر سکیں بلکہ ان کے پکارنے سے محض بےخبر ہوں۔‘‘[سورہ احقاف:۵]اور اس چیز کو سماعت فرمائیں جو ان سے موت کے وقت کہا جائے گا جب فرشتے انہیں وفات دیں گے،فرمان باری تعالیٰ ہے:﴿حَتَّىٰ إِذَا جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنَهُمْ قَالُوا أَيْنَ مَا كُنتُمْ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ ۖ قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا وَشَهِدُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ ﴾[الأعراف:37]’’یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ان کی جان قبض کرنے آئیں گے تو کہیں گے کہ وه کہاں گئے جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے، وه کہیں گے کہ ہم سے سب غائب ہوگئے اور اپنے کافر ہونے کا اقرار کریں گے۔ ‘‘ [سورہ اعراف:۳۷]اورکافر کا عمل برباد ہوجائے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَقَدِمْنَا إِلَىٰ مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَّنثُورًا﴾[الفرقان:23]’’اور انہوں نے جو جو اعمال کیے تھے ہم نےان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگنده ذروں کی طرح کردیا۔ ‘‘ [سورہ فرقان:۲۳]اورایسا اس لیےکہ اس نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے،پس اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے کا بیان سابقہ آیت میں گزرچکا ،اور رسولﷺ کے حکم کی مخالفت ان کی نافرمانی کرنے میں مضمر ہے، اس طور سے کہ آپﷺ نے یہ حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی سے نہ سوال کیا جائے چنانچہ آپﷺ کا ارشاد ہے: (إذاسألتَ فاسألِ اللهَ وإِذا سْتَعنْتَ فاستَعِنْ باللهِ) ’’جب تم مانگوتو اللہ تعالیٰ ہی سے مانگو،اور جب تم مدد طلب کرو تو اللہ تعالیٰ ہی سے مدد مانگو۔ ‘‘([8])اورشرک کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا،اورتمام اعمال صالحہ جیسے نماز،روزہ اور حج کو بربا د کردے گا،ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴾[الزمر:65]’’ یقیناً تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے (کے تمام نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلاشبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا اور بالیقین تو زیاں کاروں میں سے ہوجائے گا۔‘‘[سورہ زمر:۶۵]اوراللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ﴾[المائدة:72]’’ یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے، اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے اور گنہگاروں کی مدد کرنے واﻻ کوئی نہیں ہوگا۔ ‘‘ [سورہ مائدہ:۷۲]لہذا اے میرے مسلمان بھائی! شرک اوروسائل شرک سے بازرہیں، جیسے :قبروں پرمساجد وغیرہ تعمیر کرنا،یا کسی ایسی قبرکا قصد کرنا جہاں غیراللہ کو پکارا جاتا ہو، یا صاحب قبر کے لیے ذبیحہ پیش کیا جاتا ہو،کیونکہ شرک ایسی (برائی ہے) جس سے ہمارے اورآپ کے باپ ابراہیم علیہ السلام اپنے بارے میں ڈرتے تھے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی حکایت کو نقل کیا ہے:﴿وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَـٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ ﴾’’(ابراہیم کی یہ دعا بھی یاد کرو) جب انہوں نے کہا کہ اے میرے پروردگار! اس شہر کو امن واﻻ بنادے، اور مجھے اور میری اوﻻد کو بت پرستی سے پناه دے۔‘‘[سورہ ابراہیم:35]یعنی اے میرے رب! ہمیں اپنے سوا دوسروں کو پکارنے سے بچا ،اوربتوں کے بارے میں وہ جانتے تھے کہ یہ جامد ہیں لیکن اس کے پس پردہ وہ نیک اشخاص کی نمائندگی کرتے ہیں۔امام ابراہیم تیمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: (وَمَنْ يأمن البَلاءَ بعدَ إبراهِيم؟)’’ابراہیم علیہ السلام کےبعد کون آزمائش سے مامون رہ سکتا ہے؟‘‘۔لہذا اے میرے پیارے مسلمان بھائی!آپ کےلئےضروری ہے کہ لوگوں کو اس طرح کی گھٹیا اور شرکیہ جاہلی عادات کو ترک کرنے کی دعوت دیں، جو جاہلیت اولیٰ کے طریقے سے مختلف نہیں ہیں،اور یہ کہ وہ خالص اللہ عزّوجل سے دعاکریں ،اورباری تعالیٰ کی دعوت کو قبول کریں، جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ﴾[غافر:60]’’اور تمہارے رب کا فرمان (سرزد ہوچکا ہے) کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خودسَری کرتے ہیں وه عنقریب ذلیل ہوکر جہنم میں جائیں گے‘‘۔[سورہ غافر:۶۰]اوراللہ تعالیٰ کا فرمان: ﴿وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ﴾[البقرة:186]’’ جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وه مجھے پکارے، قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہئے کہ وه میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں، یہی ان کی بھلائی کا با عث ہے۔ ‘‘ [سورہ بقرہ:۱۸۶] وسائلِ شرکہم کو اس بات کا بخوبی علم ہوناچاہئے کہ وسائلِ شرک میں سے قبروالی مسجدوں کے اندر نماز پڑھنا ہے،اوراس کے اندر نماز باطل ہوگی جیسا کہ نبیﷺ کا فرمان ہے:(لَعَنَ اللهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ )’’یہود ونصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو کہ جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کومسجدیں بناڈالیں ‘‘۔(اسے بخاری ومسلم رحمہما اللہ نے عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے)([9])۔اوران کے لیے نبی ﷺ کی قبر میں کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ آپﷺ اپنے گھرمیں دفن کیے گئے ہیں،اورآپﷺ کا گھرمسجد کے اندر نہیں ہے،اس لیے کہ آپﷺاپنےگھر کےاسی حصہ میں وفات پائے تھے، اورجیسا کہ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ:’’ہرنبی وہیں دفنایا جاتا ہے جہاں اس کی موت واقع ہوتی ہے‘‘ ،اسی طرح ابوبکروعمررضی اللہ عنہما آپﷺ کے ساتھ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے کمرہ میں دفن کیےگئے۔لہذ ااس طرح کے شہبات سے ہوشیا ررہنے کی ضرورت ہے جسے وہ لوگ بھڑکاتے رہتے ہیں جن کے دلوں میں شبہ ہوتا ہے۔ باطل پرستوں کے شبہات اوران کاازالہیہ لوگ کہتے ہیں کہ : ہم اولیاء سے کیوں نہ مدد طلب کریں جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:﴿أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّـهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ﴾ [يونس:62-63]’’ یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وه غمگین ہوتے ہیں یہ وه لوگ ہیں جو ایمان ﻻئے اور (برائیوں سے) پرہیز رکھتے ہیں۔ ‘‘ [سورہ یونس:۶۲۔۶۳] لہذا ہم ان سے اللہ کے ہاں ان کے جاہ ومرتبہ کو چاہتے ہیں،کیونکہ صالحین کا اللہ کے ہاں جاہ ومرتبہ ہے،اورہم ان سے اسی چیز کا مطالبہ کرتے ہیں جواللہ نے انہیں عطا کیا ہے؟ توحید پرست اہل سنت وجماعت کے علماء نے ان کے اس شبہہ کا یوں جواب دیا ہے کہ پہلے اس آیت کو پورا پڑھیں جس سے آپ نے دلیل پکڑی ہے،اورجس کا تکملہ اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے:﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ﴾ [يونس:62-63]’’یہ وه لوگ ہیں جو ایمان ﻻئے اور (برائیوں سے) پرہیز رکھتے ہیں‘‘۔ [سورہ یونس: ۶۳] چنانچہ اس آیت کے اندر رب العالمین نے اپنے اولیاء کی پہچان بتلائی ہے کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات پرایمان رکھتے ہیں،اوراس کی ناراضگی وناپسندیدگی کے کاموں سے بچتے ہیں، اوران( ناپسندیدہ اورناراضگی کے) اعمال میں سے سب بڑا عمل اللہ کے ساتھ شرک کرنا، اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے علاوہ کسی کا وسیلہ پکڑنا ہے، تویہ(اولیاء) اپنے غیر کے لیے کیسے اس بات کو پسند کرسکتے ہیں کہ ان کے ذریعہ وسیلہ پکڑا جائے؟ بلکہ اللہ تعالیٰ بروز قیامت اپنے اولیاء سے کہے گا:﴿وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ يَقُولُ لِلْمَلَائِكَةِ أَهَـٰؤُلَاءِ إِيَّاكُمْ كَانُوا يَعْبُدُونَ قَالُوا سُبْحَانَكَ أَنتَ وَلِيُّنَا مِن دُونِهِم ۖ بَلْ كَانُوا يَعْبُدُونَ الْجِنَّ ۖ أَكْثَرُهُم بِهِم مُّؤْمِنُونَ﴾ [سبأ:40-41]’’ اور ان سب کو اللہ اس دن جمع کرکے فرشتوں سے دریافت فرمائے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کرتے تھےوه کہیں گے تیری ذات پاک ہے اور ہمارا ولی تو تو ہے نہ کہ یہ ،بلکہ یہ لوگ جنوں کی عبادت کرتے تھے، ان میں سے اکثر لوگوں کا ان ہی پر ایمان تھا‘‘۔[سورہ سبا:۴۰۔۴۱]اور رسولﷺ نے مشرکین عرب سے ان کے توحیدربوبیت( یعنی: اس بات کا اقرار کہ اللہ ہی خالق،رازق اورزمین وآسمان کے تمام امور کا مدبّرہے)کے اقرار کے باوجود بھی قتال کیا ، آپ ﷺ نےان سے قتال کیا حالانکہ وہ لوگ اولیاء کے بارے میں یہ کہتے تھے کہ: ﴿...هَـٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّـهِ﴾[يونس:18]’’... یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں۔‘‘[سورہ یونس:۱۸]مگرمردہ صالحین وغیرہ میں سے ان کے سفارشی ان کے کچھ کام نہ آسکے۔میں اللہ سے دست بدعا ہوں کہ مجھے اور آپ کو اور تمام مسلمانوں کو اس چیز کی توفیق ارزانی کرے جس سے وہ خوش اور راضی ہو، اورہمیں ہمارے باپ سیدنا ابراہیم خلیل علیہ السلام اورہمارے نبی امّی اورامین محمد ﷺ کی سنت پراپنی ملاقات تک ثابت قدم رکھے،اور ہمیں ہرطرح کی فتنوں سے محفوظ رکھے، اوراپنی رحمت سے محروم نہ کرےآمین۔اورہماری آخری دعا یہی ہے کہ ساری تعریفیں صرف اللہ کے لیے ہیں ، اورہمارے نبی محمد پر اللہ کی بے شمار رحمتیں وسلامتیں نازل ہوں۔([1]) یہ حدیث صحیح ہے، دیکھئے: صحیح الجامع (۳۴۰۷)[2]) )اسےامام احمد نے (۲؍۳۲۴) میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کیا ہے،اوریہ حدیث حسن صحیح ہے،دیکھئے: صحیح ابن ماجہ (۲؍۳۲۴)۔[3]) )یعنی ہم  اپنے نبیﷺ کے چچا کی دعا کے ذریعہ تیرا تقرّب حاصل کرتے ہیں،اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے،کیونکہ وہ زندہ تھے،اور زندہ  شخص سے دعا کروانا جائز ہے۔[4]) ) اسےبخاری رحمۃ اللہ علیہ نے (۲؍۵۷۴۔ مع الفتح)  انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔[5])) بخاری (۳؍۷۶۔ مع الفتح)ومسلم (۲؍۱۰۱۴)  بروایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ۔[6]) (اسے امام احمد نے (۵؍۲۶۴) میں اسلم قبیلہ کے ایک آدمی(جوصحابی ہیں)  روایت کیا ہے،…الحدیث، دیکھیں: صحیح البخاری(۷۸۹۲)۔ ([7])(اس حدیث کو امام  ترمذی نے اپنی سنن (۵؍۲۵۹) میں عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اور یہ حسن ہے، ملاحظہ فرمائیں:غایۃ المرام في تخریج أحادیث الحلال والحرام  رقم:(۶) [8])) (اسے امام احمد نے (۱؍۳۰۶) ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور یہ صحیح حدیث ہے ،ملاحظہ فرمائیں :صحیح الجامع (۷۹۵۷)۔[9]) ) ملاحظہ فرمائیں: صحیح الجامع للشیخ الألبانی(۱؍۹۰۹)