البحث

عبارات مقترحة:

القدير

كلمة (القدير) في اللغة صيغة مبالغة من القدرة، أو من التقدير،...

الولي

كلمة (الولي) في اللغة صفة مشبهة على وزن (فعيل) من الفعل (وَلِيَ)،...

المحيط

كلمة (المحيط) في اللغة اسم فاعل من الفعل أحاطَ ومضارعه يُحيط،...

حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک رات نبی کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ نے سورۃ البقرہ پڑھنا شروع کردیا تو میں نے سوچا کہ آپ سو آیت پر رکوع فرمائیں گے۔ لیکن آپ پڑھتے رہے، تو میں نے اپنے دل میں کہا: آپ اس سورت کو دو رکعتوں میں پوری فرمائیں گے۔ لیکن آپ پڑھتے رہے تو میں نے اپنے جی میں کہا: آپ پوری سورت پڑھ کر رکوع فرمائیں گے۔ لیکن پھر آپ نے سورت نساء پڑھنا شروع کردیا، اسے پڑھ چکنے کے بعد پھر آپ نے سورت آل عمران پڑھنا شروع کردیا اور پوری سورت پڑھ ڈالی۔ آپ یہ قرآت آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کرتے تھے۔ جب آپ کسی ایسی آیت سے گزرتے جس میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح (پاکی) کا ذکر ہوتا تو آپ اس کی پاکی بیان کرتے، اور جب کسی سوال کی آیت سے گزرتے تو اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے، اور جب کسی پناہ کی آیت سے گزرتے تو اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے۔ پھر آپ نے رکوع کیا اور اس میں «‏سبحان ربي العظيم» (پاک ہے میرا رب جو عظیم ہے) پڑھتے رہے۔ آپ کا رکوع تقریباً آپ کے قیام کے برابر تھا۔ پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا اور «سمع اللہ لمن حمده» کہا، آپ کا قیام تقریباً آپ کے رکوع کے برابر تھا، پھر آپ نے سجدہ کیا اور اس میں آپ «سبحان ربي الأعلى» (پاک ہے میرا رب جو اعلیٰ ہے) پڑھ رہے تھے، اور آپ کا سجدہ تقریباً آپ کے رکوع کے برابر تھا۔ اور جریر کی حدیث میں اتنا زائد ہے کہ آپ نے (سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ) بھی کہا۔

شرح الحديث :

حذیفہ رضی اللہ عنہ خبر دے رہے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات کی نماز پڑھی۔ اور یہ کہ آپ اپنے رکوع میں "سُبحان رَبِّيَ العظيم" اور اپنے سجدے میں "سُبحان رَبِّيَ الأعلى" پڑھتے تھے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ رکوع اور سجدے میں یہ ذکر کرنا مشروع ہے۔ "وما مَرَّ بآية رَحْمَة إلا وقَف عِندها فَسأل" یعنی جب آپ کسی ایسی آیت سے گزرتے جس میں جنت اور نعمتوں کا تذکرہ ہوتا، تو آپ اللہ تعالیٰ سے اس کا سوال کئے بغیر آگے نہیں بڑھتے تھے، چنانچہ آپ یہ دعا کرتے: اللَّهم إني أسألك الجنَّة (اے اللہ میں تجھ سے جنت کا سوال کرتا ہوں)، اس موقع پر آدمی اللہ تعالی کے فضل کا بھی سوال کرسکتا ہے، اگرچہ وہ انبیا، یا اولیا کی تعریف و ستائش یا اسی طرح کی آیات سے گزرے۔ چنانچہ وہ اس طرح دعا کر سکتا ہے: أسأل الله من فضله (میں اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرتا ہوں)، یا یہ دعا کہ: أسأل الله أن يَلحقني بهم (اللہ سے سوال کرتا ہوں مجھے ان کی رفاقت نصیب فرمائے)، یا اس جیسی دعائیں۔ "ولا بآية عَذاب إلا وقَف عِندها فتعوَّذ " یعنی جب آپ کسی ایسی آیت سے گزرتے جس میں عذاب، جہنم اور جہنمیوں کے احوال کا تذکرہ ہوتا، تو اس سے پناہ مانگے بغیر آگے نہیں بڑھتے تھے۔ لہٰذا اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنا مستحب ہے۔ لیکن علماء کے ایک مجموعہ نے اسے نفل نمازوں کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔ کیونکہ آپ سے فرض نمازوں کے اندر یہ عمل منقول نہیں ہے، باوجود اس کے کہفرض نمازوں میں آپ کی قراءت کی کیفیت تذکرہ بہت سے صحابہ نے کیا ہے۔ اگر کبھی کبھار فرض نمازوں میں ایسا کرلیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس لیے کہ جو چیز فرض نماز میں ثابت ہے اسے نفل میں کرنا جائز ہے۔ اور اسی طرح اس کے برعکس بھی۔ ہاں اگر تخصیص پر کوئی دلیل موجود ہو تو پھر ایسا کرنا جائز نہیں۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية