البحث

عبارات مقترحة:

القريب

كلمة (قريب) في اللغة صفة مشبهة على وزن (فاعل) من القرب، وهو خلاف...

المحسن

كلمة (المحسن) في اللغة اسم فاعل من الإحسان، وهو إما بمعنى إحسان...

الرزاق

كلمة (الرزاق) في اللغة صيغة مبالغة من الرزق على وزن (فعّال)، تدل...

حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے دعائے قنوت کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ رکوع سے پہلے ہونی چاہیے ، میں نے عرض کیا کہ فلاں شخص کا گمان ہے کہ آپ نے رکوع کے بعد کہا تھا۔ انس رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ انھوں نے جھوٹ کہا ہے۔ پھر انھوں نے ہم سے یہ حدیث بیان کی کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینے تک رکوع کے بعد دعائے قنوتِ نازلہ پڑھی۔ اور آپ اس میں بنوسلیم کے قبیلوں کے حق میں بددعا کر رہے تھے۔‘‘، انھوں نے بیان کیا کہ: آپ نے چالیس ـــــــ یا ستر، راوی کو تعداد میں شک ہے ـــــــ قرآن کے عالم صحابہ کی ایک جماعت مشرکین کی طرف روانہ کیا، لیکن بنوسلیم کے لوگ ان کے آڑے آئے اور ان کو مار ڈالا ۔ حالاں کہ نبی کریم سے ان کا معاہدہ تھا ۔ (لیکن انھوں نے دغا دیا)۔ ’’میں نے آپ کو کسی معاملہ پر اتنا رنجیدہ اور غمگین نہیں دیکھا جتنا ان صحابہ کی شہادت پر آپ رنجیدہ تھے۔‘‘

شرح الحديث :

اس حدیث میں قنوت نازلہ کی مشروعیت بیان کی جا رہی ہے۔ اور یہ کہ یہ رکوع سے اٹھنے کے بعد پڑھی جائے گی، کیوں کہ نبی کریم نے ایسا ہی کیا تھا جب بنو سلیم نے اپنے معاہدہ کو جو ان کے اور مسلمانوں کے مابین طے پایا تھا، توڑتے ہوئے ستر یا چالیس قراء صحابہ کو شہید کردیا، جنھیں رسول اللہ نے مشرکیں کی طرف (دعوت وتبلیغ کی غرض سے) بھیجا تھا۔ آپ نے ایک مہینہ تک رکوع کے بعد قنوت نازلہ پڑھی جس میں ان پر بددعا کرتے رہے۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية