الكبير
كلمة (كبير) في اللغة صفة مشبهة باسم الفاعل، وهي من الكِبَر الذي...
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ ابراہیم نے کہا مجھے نہیں معلوم کہ نماز میں زیادتی ہوئی یا کمی ــــــــــــ پھر جب آپ ﷺ نے سلام پھیرا تو آپ سے کہا گیا کہ اے اللہ رسول! کیا نماز میں کوئی نیا حکم آیا ہے؟ آپ ﷺ نے کہا: آخر کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا آپ نے اتنی اتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے اپنے دونوں پاؤں پھیرے اور قبلہ کی طرف منہ کر لیا اور (سہو کے) دو سجدے کیے اور سلام پھیرا۔ پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ: ’’اگر نماز میں کوئی نیا حکم نازل ہوا ہوتا تو میں تمہیں پہلے ہی بتا چکا ہوتا لیکن میں تو تمہارے ہی جیسا انسان ہوں، جس طرح تم بھولتے ہو میں بھی بھولتا ہوں۔اس لیے جب میں بھول جایا کروں تو تم مجھے یاد دِلا دیا کرو اور اگر کسی کو نماز میں شک ہو جائےتو سوچ کر درست کیا ہے، اسے معلوم کرے اور اسی کے مطابق نماز پوری کرے پھر سلام پھیر کر (سہو کے) دو سجدے کر لے۔‘‘
اس حدیث میں یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو نماز پڑھائی اس میں کمی بیشی ہو گئی۔ صحابہ نے پوچھا کہ کیا نماز میں کسی تبدیلی کا حکم آ گیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی نیا حکم آیا ہوتا تو میں تمہیں ضرور بتا دیتا پھر انھیں بتایا کہ وہ بھی ان جیسے انسان ہیں اور نماز میں کمی بیشی کے اعتبار سے بھول سکتے ہیں۔ پھر یہ حکم بیان کیا کہ جو شخص بھول کر نماز میں کمی بیشی کر بیٹھے تو پھر ادا شدہ عدد رکعات کو یقینی کر لے اور اگر اس میں نقص آ گیا ہے تو اس کے مطابق نماز پوری کرے اور سہو کے دو سجدے کرکے سلام پھیر دے۔